سوچتا ہوں كے اسے نیند بھی آتی ہوگی
سوچتا ہوں كے اسے نیند بھی آتی ہوگی
یا میری طرح فقط اشک بہاتی ہوگی وہ میری شکل میرا نام بھلانے والی اپنی تصویر سے کیا آنکھ ملاتی ہوگی اِس زمین پہ بھی ہے سیلاب میرے اشکوں سے میرے ماتم کی سدا عرش حیلااتی ہوگی شام ہوتے ہی وہ چوکھٹ پہ جلا کر شامیں اپنی پلکوں پہ کئی خواب سلاتی ہوگی اس نے سلوا بھی لیے ہونگے سیاہ رنگ كے لباس اب محرم کی طرح عید مناتی ہوگی ہوتی ہوگی میرے بوسے کی طلب میں پاگل جب بھی زلفوں میں کوئی پھول سجاتی ہوگی میرے تاریک زمانوں سے نکلنے والی روشنی تجھ کو میری یاد دلاتی ہوگی دِل کی معصوم رگیں خود ہی سلگتی ہونگی جون ہی تصویر کا کونا وہ جلاتی ہوگی روپ دے کر مجھے اِس میں کسی شہزاادی کا اپنے بچوں کو کہانی وہ سناتی ہوگی |
پیر، 22 اکتوبر، 2018
سوچتا ہوں كے اسے نیند بھی آتی ہوگی
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں