جمعہ، 22 مارچ، 2019

ابنِ انشاؔ کے دو مجموعوں چاند نگر اور اس بستی کے اک کوچے میں سے انتخاب۔


اپنے ہمراہ جو آتے ہو، اِدھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں، گھر سے پہلے

چل دئیے اُٹھ کے سوئے وفا، کوئے حبیب
پوچھ لینا تھا کسی خاک بسر سے، پہلے

عشق پہلے بھی کیا، ہجر کا غم بھی دیکھا
اتنے تڑپے ہیں، نہ گھبرائے، نہ ترسے پہلے

جی بہلتا ہی نہیں اب کوئی ساعت، کوئی پل
رات ڈھلی ہی نہیں چار پہر سے پہلے

ہم کسی دَر پہ ٹھٹکے، نہ کہیں دستک دی
سینکڑوں دَر تھے مری جان تیرے دَر سے پہلے

چاند سے آنکھ ملی، جی کا اُجالا جاگا
ہم کو سو بار ہوئی صبح سحر سے پہلے
انشاؔ
-- 

اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
صبح کا ہونا دوبھر کر دیں رستہ روک ستاروں کا

جھوٹے سکوں میں بھی اٹھا دیتے ہیں یہ اکثر سچا مال
شکلیں دیکھ کے سودے کرنا کام ہے ان بنجاروں کا


اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بچاروں کا

جس جپسی کا ذکر ہے تم سے دل کو اسی کی کھوج رہی
یوں تو ہمارے شہر میں اکثر میلا لگا نگاروں کا

ایک ذرا سی بات تھی جس کا چرچا پہنچا گلی گلی
ہم گمناموں نے پھر بھی احسان نہ مانا یاروں کا

درد کا کہنا چیخ ہی اٹھو ، دل کا کہنا وضع نبھاؤ
سب کچھ سہنا چپ چپ رہنا کام ہے عزت داروں کا

انشاؔ جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوڑی نام نہ لو اُن پیاروں کا
انشاؔجی
-- 

بستیاں قریے گھوم چکے اب دَشت کو لوٹیں بن کو چلیں
شام ہوئی آوارہ غزالو! آؤ کہ اپنے وطن کو چلیں

’’تم اور ہم سے پیار کرو گے؟ جھوٹ ہے لو بھی بنجارو
بیچو گے بیوپار کرو گے، تم سے دور بھلے پیارو‘‘

بیٹھا ہے وہ جو آگ جلائے، کھوہ کے منہ پر چرواہا
وہ بھی ہے تیر کمان سجائے‘ اس سے بھی ہم کو بچنا ہوا

پچھم میں جہاں پیڑ گھنے ہیں، ان سے بھی لوگو دور ہی دور
ان میں وہ اپنی جان کے بیری چیتے باگھ چھپے ہیں ضرور

ہر کوئی دیکھ کے جال بچھائے، ہر کوئی اُٹھ کے وار کرے
بستیاں قریے گھوم چکے ہم، کوئی نہ ہم سے پیار کرے

لائے تھے ہم اسے کس کو دکھانے، لے چلیں دکھتے من کو ‘ چلیں
شام ہوئی آوارہ غزالو، آؤ کہ اپنے وطن کو چلیں
انشاؔ
--- 

دیکھ مری جان کہہ گئے باہوؔ کون دلوں کی جانے ’ہو‘
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں کریں دِوانے ’ہو‘

جوگی بھی جو نگر نگر مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لیے بھبھوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں

شاعر بھی جو میٹھی بانی بول کے من کر ہرتے ہیں
بنجارے جو اُونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

ان میں سچے موتی بھی ہیں، ان میں کنکر پتھر بھی
ان میں اُتھلے پانی بھی ہیں، ان میں گہرے ساگر بھی

گوری دیکھ کے آگے بڑھنا سب کا جھوٹا سچا ’ہو‘
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گھڑا تھا جس کا کچا ’ہو‘
ابنِ اِنشاؔ
--- 

دل درد میں گھلتا رہے ، یہ کس کو گوارا ہے
ہم کو تو مگر یارو‘ یہ درد ہی پیارا ہے
امید کا ہر لمحہ اب وصل کا لمحہ ہے
جب دُور کنارا ہو ، ہر موج کنارا ہے
اس زلف نے اپنے کو کیا کیا نہیں اُلجھایا
جس زلف کو خود ہم نے سو بار سنوارا ہے
وہ رات گئی انشاؔ ، وہ بات گئی انشاؔ
اب کس لئے جیتے ہو‘ اب کس کا سہارا ہے
ابن انشاؔ
--- 

دل کا تھا چاک مگر پہنچایا ، تا بہ گریباں انشاؔ نے
دشت میں جا اِک شہر بسایا بے سرو ساماں انشاؔ نے

قیس کی سنت نجدِ وفا میں پھر اس شخص نے زندہ کی
ہم کو بھی پہلے یقیں نہیں آیا انشاؔ نے ہاں انشاؔ نے

پھر کوئی یاد پرانی جاگی ، پھر کسی درد نے چٹکی لی
پھر ہمیں دیوانے نے بلایا چلتے ہیں یاراں انشاؔ نے

ایک سے ایک انوکھا تیکھا دُنیا میں تو غم ہزاروں تھے
کیوں تجھے تنہا جی میں بسایا اے غم جاں انشاؔ نے

دل کے سنبھلنے کی کوئی صورت لازم ہے ‘ یہاں کچھ بھی نہیں
اپنے کو جب سے یہ روگ لگایا کر لیا حیراں انشاؔ نے

اب اسے دنیا وحشی و رُسوا خوار و پریشاں کچھ بھی کہے
عشق کیا اور کر کے نبھایا عشق کے شایاں انشاؔ نے
انشاؔجی
--- 

دل کا تھا چاک مگر پہنچایا، تا بہ گریباں انشاؔ نے
دشت میں جا اِک شہر بسایا بے سرو ساماں انشاؔ نے

قیس کی سنت نجدِ وفا میں پھر اس شخص نے زندہ کی
ہم کو بھی پہلے یقیں نہیں آیا انشاؔ نے ہاں انشاؔ نے

پھر کوئی یاد پرانی جاگی، پھر کسی درد نے چٹکی لی
پھر ہمیں دیوانے نے بلایا چلتے ہیں یاراں انشاؔ نے

ایک سے ایک انوکھا تیکھا دُنیا میں تو غم ہزاروں تھے
کیوں تجھے تنہا جی میں بسایا اے غم جاں انشاؔ نے

دل کے سنبھلنے کی کوئی صورت لازم ہے یہاں کچھ بھی نہیں
اپنے کو جب سے یہ روگ لگایا کر لیا حیراں انشاؔ نے

اب اسے دنیا وحشی و رُسوا خوار و پریشاں کچھ بھی کہے
عشق کیا اور کر کے نبھایا عشق کے شایاں انشاؔ نے 

انشاؔجی 
۔۔۔

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے
یہ حسن طلب کی بات نہیں ہوتا ہے مری جان ہوتا ہے

ہم تیری سکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اِک خار کھٹکتا رہتا ہے سینے میں، جو پنہاں ہوتا ہے

پھر ان کی گلی میں پہنچے گا‘ پھر سہو کا سجدہ کر لے گا
اِس دل پہ بھروسہ کون کرے، ہر روز مسلماں ہوتا ہے

وہ درد کہ اس نے چھین لیا، وہ درد کہ اس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ اب بھی مرا مہماں ہوتا ہے
انشاؔجی
--- 

جتنی زبانیں اتنے قصے اپنی اُداسی کے کارن کے
۲۔ دل و جانم بتو مشغول و نگاہم چپ و راست
تا نہ وانند حریفاں کہ تو منظورِ منی
ہم آہ بھریں ، نالہ کریں ، کچھ نہ کہیں تو
سب تیرے لیے ۔ تجھ کو یقین نہ آئے
یاروں نے کبھی کیفیت درد جو پوچھی
ہم نے اُنہیں برجستہ فسانے ہی سنائے
پر تم سے تو پوشیدہ نہیں اپنی حکایت
اس رشتہ نازک کو نہ اُلجھاؤ تو اچھا
اب اور بڑھاؤ نہ غم صبر طلب کو
اب پردہ دوری سے نکل آؤ تو اچھا
ابن انشاؔ
--- 

دل سی چیز کے گاہک ہونگے دو یا ایک ہزار کے بیچ
اِنشاؔ جی کیا مال لیے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچ

پینا پلانا عین گناہ ہے، جی کا لگانا عین ہوس
آپ کی باتیں سب سچی ہیں لیکن بھری بہار کے بیچ

اے سخیو اے خوش نظرو یک گونہ کرم خیرات کرو
نعرہ زناں کچھ لوگ پھریں ہیں صبح سے شہر نگار کے بیچ

خار و خس و خاشاک تو جانیں، ایک تجھی کو خبر نہ ملے
اے گل خوبی ہم تو عبث بدنام ہوئے گلزار کے بیچ

منت قاصد کون اُٹھائے شکوہ درباں کون کرے
نامۂ شوق غزل کی صورت چھپنے کو دو اخبار کے بیچ
--- 

فقیر بن کر تم ان کے در پر ہزار دھونی رما کے بیٹھو
جبیں کے لکھے کو کیا کرو گے، جبیں کا لکھا مٹا کے بیٹھو

اے ان کی محفل میں آنے والو، اے سودو سودا بتانے والو
جو ان کی محفل میں آکے بیٹھو توساری دنیا بھلا کر بیٹھو

بہت جتاتے ہو چاہ ہم سے، مگر کرو گے نباہ ہم سے؟
ذرا ملاؤ نگاہ ہم سے، ہمارے پہلو میں آکے بیٹھو

جنوں پرانا ہے عاشقوں کا، جویہ بہانہ ہے عاشقوں کا
تو اک ٹھکانا ہے عاشقوں کا، حضور جنگل میں جاکے بیٹھو

ہمیں دکھاؤ نہ زرد چہرا، لئے یہ وحشت کی گرد چہرا
رہے گا تصویر درد چہرا، جو روگ ایسے لگا کر بیٹھو

جناب انشاؔء یہ عاشقی ہے، جناب انشاء ؔیہ زندگی ہے
جناب انشاؔء جو ہے یہی ہے، نہ اس سے دامن چھڑا کے بیٹھو
ابنِ انشاء
----

ہمیں تم پہ گمانِ وَحشت تھا ہم لوگوں کو رُسوا کیا تم نے
ابھی فصل گلوں کی نہیں گزری، کیوں دَامن چاک کیا تم نے

اس شہر کے لوگ بڑے ہی سخی، بڑا مان کریں درویشوں کا
پر تم سے تو اِتنے برہم ہیں، کیا آن کے مانگ لیا تم نے

کن راہوں سے ہو کر آئی ہو، کس گل کا سندیسہ لائی ہو
ہم باغ میں خوش خوش بیٹھے تھے، کیا کر دیا آ کے صبا تم نے

غم عشق میں کاری دوا نہ دُعا، یہ ہے روگ کٹھن، یہ روگ برا
ہم کرتے جو اپنے سے ہو سکتا، کبھی ہم سے بھی کچھ نہ کہا تم نے

وہ جو ’’قیس‘‘ غریب تھے ان کا جنوں کبھی کہتے ہیں ہم سے رہا ہے فزوں
ہمیں دیکھ کے ہنس تو دِیا تم نے ، کبھی دیکھیں ہیں اہل وفا تم نے

اب رہرو ماندہ سے کچھ نہ کہو، یونہی شاد رہو، آباد رہو
بڑی دیر سے یاد کیا تم نے، بڑی دور سے دی ہے صدا تم نے

اِک بات کہیں گے انشاؔ جی، تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم اِک جہاں کا علم پڑھے، کوئی میرؔ سا شعر کہا تم نے
انشا
---- 

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اور شام کہاں

ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ، ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پشیماں ہو بھی سکو گے ہم کو یہاں پہ دوام کہاں

سانجھ سمے کچھ تارے نکلے پل بھر چمکے ڈوب گئے
انبرا انبرا ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہِ تمام کہاں

دل پہ جو بیتے سہہ لیتے ہیں اپنی زباں میں کہ لیتے ہیں
انشاؔجی ہم لوگ کہاں اور میرؔ کا رنگِ کلام کہاں
انشاؔجی
---- 

ہم نے نہ کہا تھا کہ وہ کیا کیا نہ کریں گے
ہاں صبر کی کہتے ہو تو انشاؔ نہ کریں گے

بڑھ جائے گا آزارِ محبت ہے یہ لوگو
وہ ایک نظر دیکھ کے اچھا نہ کریں گے؟

اُن سے یہ کہو ایسے دیوانوں سے نہ اُلجھیں
سن لیں گے مگر آپ کا کہنا نہ کریں گے

سائل ہیں فقط ایک عنایت کی نظر کے
یہ اور کسی شے کا تقاضا نہ کریں گے

در سے نہ اُٹھائیں وہ ضمانت پہ ہماری
رُسوا ہیں مگر آپ کو رُسوا نہ کریں گے
انشاؔ
---- 

ہم رات بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی

سر زانوں پہ رکھے کیا سوچ رہی ہو
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی

تم میری طرف دیکھ کے چپ سی ہو گئیں تھیں
وہ ساعت خوش وقت نشاط گزراں کی

اِک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی

اب اور ہی اوقات ہے اے جان تمنا
ہم نالۂ کشاں‘ بے گنہاں‘ غم زدگاں کی

اِس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو
کہتے ہو کبھی بات وہاں جا کے یہاں کی؟

اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں کہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی
’’ق‘‘
انشاؔ سے ملو اس سے نہ روکیں گے؟ ولیکن
اس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی؟
مشہور ہے ہر بزم میں اِسی شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام میاں کی
اے دوستو اے دوستو اے درد نصیبو!
ہم جائیں کسی سمت کسی چوک پہ ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی
اِنشاؔ کی غزل سن لو پہ رنجور نہ ہونا
دیوانہ ہے دیوانے نے اِک بات بیاں کی
ہوتا ہے یہی عشق میں ہنجار سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی
انشاؔجی
---- 

ہم ان سے اگر مل بیٹھتے ہیں‘ کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے، کچھ اُن کا اشارا ہوتا ہے

کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں‘ دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر؟
یا شامِ غریباں کا جگنو، یا صبح کا تارا ہوتا ہے

ہم دل کو لیے پر دیس پھرے، اس جنس کے گاہک نہ مل سکے
اے بنجارو ہم لوگ چلے، ہم کو تو خسارا ہوتا ہے

دفتر سے اُٹھے‘ کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے‘ کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاؔ جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے
انشاؔ جی
--- 

ہم اس دل کے محرم ٹھہرے، یہ کسی مصر کا زنداں تھا
لیکن کل کیا بات تھی جانے، کل یہ قصرِ چراغاں تھا

ایسا ویسا نور تھا اس میں؟ نور بھی نورِ کنعاں تھا
چاند ستارے دَر کے سایل، خواجہِ برق جو دَرباں تھا

ہم نے تو باہر سے دیکھا، قندیلیں تھیں یادوں کی؟
یا ان دیواروں کے پیچھے، شعلۂ یوسف عُریاں تھا

جاں مری کل کون کھڑا تھا در پہ ترے کشکول بدست
یا بصرے کا والی تھا وہ، یا دلی کا سلطاں تھا

اپنا عشق، تغافل تیرا، یہ تو محض بہانے ہیں
مدت سے دہلیزِ جنوں پر اک سجدے کا اَرماں تھا

اُن کانٹوں کی یاد میں اب تک تلووں کو سہلاتے ہو
ہم خسروِ دشتِ وفا تھا، سارا دشت مغیلاں تھا

ہم تو رعبِ حسن کے مارے نام نہ اس کا پوچھ سکے
جس نے ہم کو شاہی بخشی، لوگو کون سلیماں تھا؟

ملا جی تادیب کرو کچھ اپنے برخورداروں کی
کل بھی قیس میاں کے بَر میں، اِنشاء جی دیواں تھا
اِبنِ اِنشا
---- 

ہم گھوم چکے بستی بَن میں
اک آس کی پھانس لیے من میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

جب ساون میں بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا رُوپ لٹاتا ہو
جب سورج دُھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دِل میلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگرا سود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا رُوپا لے جائے
سب دُنیا، دُنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
اِبنِ اِنشاؔ
---- 

اِنشاؔ جی بہت دن بیت چکے
تم تنہا تھے، تم تنہا ہو
یہ جوگ بجوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو؟

کبھی پورب میں پچھم میں
تم پُروا ہو تم پچھوا ہو؟
جو نگری نگری بھٹکائے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو

کیا اور سبھی چونچال یہاں
کیا ایک تمہی یہاں دُکھیا ہو
کیا ایک تمہی پر دُھوپ کڑی
جب سب پر سکھ کا سایا ہو

تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس بگیا کا پھول میاں
کیوں شہر تجا، کیوں رُسوا ہو؟
کیوں وحشی ہو، کیوں رُسوا ہو؟
ہم جب دیکھیں بہروپ نیا
ہم کیا جانیں تم کیا کیا ہو؟
اِنشاؔ
----- 

اِنشا جی ہے نام اِنہی کا، چاہو تو اِن سے ملوائیں؟
اِن کی رُوح دہکتا لاوا، ہم تو اِن کے پاس نہ جائیں

یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے جوگی بیراگی کہلائیں
اِن کے ہاتھ ادب سے چومیں، ان کے آگے سیس نوائیں

نا یہ لال جٹائیں راکھیں، نہ یہ انگ بھبھوت رمائیں
نا یہ گیر و رنگ فقیری چولا پہن پہن اِترائیں

نگری نگری گھومنے والوں میں اِن کی مشہور کتھائیں
ویسے بات کرو تو لاج کے مارے آنکھیں جھک جھک جائیں

نا اِن کی گڈری میں تانبا پیسہ، نا منکے مالائیں
پریم کا کاسہ رُوپ کی بھکشا، غزل، دوہے، کوِتائیں
اِنشاؔجی
---- 

انشاؔء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیامطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

اس دل کے دریدہ دامن کو‘ دیکھو تو سہی‘ سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا؟

شب بیتی‘ چاند بھی ڈوب چلا‘ زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو؟ سجنی سے کرو گے بہانا کیا؟

پھر ہجر لمبی رات میاں‘ سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے پر آنے دو‘‘ شرمانا کیا‘ گھبرانا کیا؟

اُس روز جو اُن کو دیکھا ہے‘ اب خواب کا عالم لگتا ہے
اُس روز جو ان سے بات ہوئی‘ وہ بات بھی تھی افسانہ کیا؟

اُس حسن کے سچے موتی کو، ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکے پر چھو نہ سکیں‘ وہ دولت کیا، وہ خزانہ کیا؟

اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے من! اِک شعلہ لال بھبھوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا؟

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں، کیوں بن میں نہ جا بسرام کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟
انشاؔجی
---- 

اِنشاء کہو مزاج مبارک کو اِن دنوں
دُنیا خوش آ رہی ہے کہ جانی اُداس ہو
نبھنے لگی ہے بلدۂ خوباں کی خاک سے
یا دل کی وحشتیں ہیں پرانی، اُداس ہو

وہ سر میں آپ کے تھا جو سودا چلا گیا
یا اب بھی ہے وہ جی گرانی، اُداس ہو
تنہا نشینی، خلق گریزی، فسردگی
بیتیں بہ طرزِ میرؔ سنانی، اُداس ہو

کل بزمِ دوستاں میں تمہارا ہی ذکر تھا
ہم نے سنی تمہاری کہانی، اُداس ہو
تم نے عجیب روگ ہے جی لگا لیا
تم نے ہماری بات نہ مانی اُداس ہو

دیکھو نہ اب بھی جی کو محبت سے پھیر کے
ایسی بھی کیوں کسی کی جوانی اُداس ہو
اِنشاؔ
---- 

انشاؔ نے پھر عشق کیا
انشاؔ نے پھر عشق کیا
انشاؔ صاحب دِیوانے
اپنے بھی وہ دوست ہوئے
ہم بھی چلیں گے سمجھانے
---- 

اِس بستی کے کوچے میں، ایک اِنشاؔ نام کا دِیوانا
اِک نار پہ جان ہار گیا، مشہور ہے اس کا افسانہ
اُس نار میں ایسا رُوپ نہ تھا، جس رُوپ سے دِن کی دُھوپ دبے
اِس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب گلنار لبے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اس کی چِتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اُسے اپنا بنانے کی دُھن میں ہوا آپ سے ہی بیگانہ
اِس بستی کے کوچے میں، ایک انشاؔ نام کا دیوانا
اِنشاؔ
----- 

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے

ہم اہلِ محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہلِ محبت کو آزارِ جوانی ہے!!

یاں چاند کے داغوں کو سینے میں دباتے ہیں
دنیا کہے دیوانہ یہ دنیا دیوانی ہے

اک بات مگر ہم بھی پوچھ لیں جو اجازت!
کیوں تم نے یہ غم دے کے پردیس کی ٹھانی ہے

سکھ لے کے چلے جانا، دکھ دے کے چلے جانا
کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہدیۂ دلِ مفلس کا ،چھ شعر غزل کے ہیں
قیمت میں تو ہلکے ہیں، انشاء کی نشانی ہے
ابن ِ انشاؔ
---- 

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے

ہم اہلِ محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہلِ محبت کو آزارِ جوانی ہے!!

یاں چاند کے داغوں کو سینے میں دباتے ہیں
دنیا کہے دیوانہ یہ دنیا دیوانی ہے

اک بات مگر ہم بھی پوچھ لیں جو اجازت!
کیوں تم نے یہ غم دے کے پردیس کی ٹھانی ہے

سکھ لے کے چلے جانا، دکھ دے کے چلے جانا
کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہدیۂ دلِ مفلس کا ،چھ شعر غزل کے ہیں
قیمت میں تو ہلکے ہیں، انشاء کی نشانی ہے
ابنِ انشاؔ
----- 

جنگل جنگل شوق سے گھومو، دشت کی سیر مدام کرو
انشاؔ جی ہم پاس بھی لیکن رات کی رات قیام کرو

اشکوں سے اپنے دل کی حکایت دامن پر ارکام کرو
عشق میں جب یہی کام ہے یار ولے کے خدا کے نام کرو

کب سے کھڑے ہیں برمیں خراجِ عشق لیے سرِ راہگزر
ایک نظر سے سادہ رخو ہم سادہ دلوں کو غلام کرو

دل کی متاع تو لوٹ رہے ہو، حسن کی دی ہے زکات بھی؟
روزِ حساب قریب ہے لوگو کچھ تو ثواب کا کام کرو

میرؔ سے بیعت کی ہے تو انشا‘ؔ میرؔ کی تبعت بھی ہے ضرور
شام کو رو رو صبح کرو اب، صبح کو رو رو شام کرو
انشاؔ
---- 

جوگ بجوگ کی باتیں جھوٹی، سب جی کا بہلانا ہُو
پھر بھی ہم سے جاتے جاتے ایک غزل سن جانا ہُو

ساری دُنیا عقل کی بیری، کون یہاں پر سیانا ہُو
ناحق نام دھریں سب ہم کو، دیوانا، دیونا ہُو

نگری نگری لاکھوں دوارے، ہر دوارے پر لاکھ سخی
لیکن جب ہم بھول چکے ہیں دامن کا پھیلانا ہُو

ایک ہی صورت، ایک ہی چہرہ، بستی، پربت، جنگل، پینٹھ
اور کسی کے اب کیا ہوں گے، چھوڑ ہمیں بھٹکانا ہُو

ہم بھی جھوٹے، تم بھی جھوٹے، ایک اُسی کا نام
جس سے دیپک جلنا سیکھا، پروانا جل جانا ہُو

سیدھے من کو آن دبوچیں میٹھی باتیں، سُندر بول
میرؔ، نظیرؔ، کبیرؔ اور اِنشاؔ، سارا ایک گھرانا ہُو
اِنشاؔ
--- 

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا

اس شہر میں کس سے ملیں؟ ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے، پربت ترے، بستی تری، صحرا ترا
’’ق‘‘
ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟
احسان ہے کیا کیا ترا، اے حسنِ بے پروا ترا

وہ اشک جانے کس لیے، پلکوں پہ آ کر ٹک گئے
الطاف کی بارش تری، اِکرام کا دریا ترا

اے بے دریغ و بے اماں‘ ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا ترا

ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں فقیرِ رہگزر
رستہ کبھی روکا ترا؟ دامن کبھی تھاما ترا؟

ہاں تری صورت حسیں‘ لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے، شہرہ ہوا کیا کیا ترا

بیشک اسی کا دوش ہے کہتا نہیں خاموش ہے
تو آپ کر ایسی دوا بیمار ہو اچھا تیرا

بے درد سننی ہو تو چل کہتا کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاؔ تیرا
---- 

خوب ہمارا ساتھ نبھایا، بیچ بھنور کے چھوڑا ہات
ہم کو ڈبو کر خود ساحل پر جا نکلے ہو اچھی بات

شام سے لے کر پو پھٹنے تک کتنی رُتیں بدلتیں ہیں
آس کی کلیاں یاس کی پت جھڑ صبح کے اشکوں کی برسات

اپنا کام تو سمجھانا ہے اے دل رشتے توڑ کے جوڑ
ہجر کی راتیں لاکھوں کروڑوں‘ وصل کے لمحے پانچ یا سات

ہم سے ہمارا عشق نہ چھینو، حسن کی ہم کو بھیک نہ دو
تم لوگوں کے دُور ٹھکانے‘ ہم لوگوں کی کیا اوقات

روگ تمہار اور ہے انشاؔ بیدوں سے کیوں چہل کرو
درد کے سودے کرنے والے‘ درد سے پا سکتے ہیں نجات؟
انشاؔجی
---- 

کون آیا مرے پہلو میں یہ خواب آلود
زلف برہم کئے ، باچشم حجاب آلود

اب موت گوارا نہ ترا ہجر گوارا
ہم منتظر آمدِ فردا ہی رہیں گے
تو خوب سمجھتا ہے نگاہوں کی زباں کو
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کچھ نہ کہیں گے
ابن انشاؔ
--- 

لو آج کی شب بھی سو چکے ہم
شامِ جدائی پھر لوٹ آئی سوئے ہوئے فتنوں کو جگایا
اِک بے نام کسک کے ہاتھوں‘ بات بات پہ دِل بھر آیا
آج بھی شاید ساتھ تمہارا منزل تک دینا ہے ستارو
پہلے بھی ہم نے اکثر تم کو صبح کی وادی تک پہنچایا
آنکھ مچولی کھیلا کریں گے کب تک یہ راتوں کے دُھندلکے
چاپ چاپ پر دل پوچھے گا یہ کون آیا یہ کون آیا
انشاؔ جی پھر اتنی سویرے صبر کا دامن چھوڑ رہے ہو
پچھلی رات کا درد ابھی تک سینے سے مٹنے نہیں پایا
ابن انشاؔ
--- 

لوگ پوچھیں گے
لوگ پوچھیں گے کیوں اُداس ہو تم
اور جو دِل میں آئے سو کہیو!
’یونہی ماحول کی گرانی ہے‘
’دن خزاں کے ذرا اُداس سے ہیں‘
’کتنے بوجھل ہیں شام کے سائے‘
اُن کی بابت خموش ہی رہیو
نام اُن کا نہ دَرمیاں آئے
اُن کی بابت خموش ہی رہیو
’کتنے بوجھل ہیں شام کے سائے
’دن خزاں کے ذرا اُداس سے ہیں‘
’یونہی ماحول کی گرانی ہے‘
اور جو دِل میں آئے سو کہیو!
لوگ پوچھیں گے کیوں اُداس ہو تم؟
اِبن اِنشا
---- 

میں دُور رکھوں گا خود کو تم سے تمہارے گھر بھی نہ آؤں گا
مگر تم اپنی شفیق نظروں میں اجنبیت سمو سکو گے
اگر میں راتوں کو کاہش غم سے تا سحر جاگتا رہوں گا
تو اِس قدر پاس رہ کے بھی مجھ سے اس قدر دُور رہ سکو گے؟
مجھے تو منظور ہے یہ سب کچھ ، میں رو کے جی لو سسک کے جی لوں
مگر مری ایسی زندگی پر تمہی کو شاید ملال ہوگا
نہ جانے کس کس شفیق دل پر یہ شاق گزرے گا مرا مرنا
مرا مرض لادوا نہیں تھا۔۔۔ مگر یہ کس کو خیال ہوگا
---

پیت کے روگی سب کچھ بوجھے سب کچھ جانے ہوتے ہیں
اِن لوگوں کے اینٹ نہ مارو کہاں دوانے ہوتے ہیں؟

آہیں ان کی اُمڈتے بادل آنسو اِن کے ابرِ مطیر
دشت میں ان کو باغ لگانے شہر بسانے ہوتے ہیں

ہم نہ کہیں گے آپ ہیں پیت کے دُشمن من کے کٹھورمگر
آ ملنے کے نا ملنے کے لاکھ بہانے ہوتے ہیں

اپنے سے پہلے دشت میں رہتے کوہ سے نہریں لاتے تھے ؟
ہم نے بھی عشق کیا ہے لوگو سب افسانے ہوتے ہیں

انشاؔ جی چھبیس برس کے ہو کے یہ باتیں کرتے ہو؟
انشاؔ جی اس عمر کے لوگ تو بڑے سیانے ہوتے ہیں


پیت کرنا تو ہم سے نبھانا سجن، ہم نے پہلے دن ہی تھا کہا نا سجن
تم ہی مجبور ہو، ہم ہی مختارہیں، خیر مانا سجن یہ بھی مانا سجن

اب جو ہونے کے قصے سبھی ہو چکے، تم ہمیں کھو چکے ہم تمہیں کھو چکے
آگے دل کی نہ باتوں میں آنا سجن، کہ یہ دل ہے سدا کا دِوانا سجن

یہ بھی سچ ہے نہ کچھ بات جی کی بنی، سونی راتوں میں دیکھا کیے چاندنی
پر یہ سودا ہے ہم کو پرانا سجن، اور جینے کا اپنا بہانا سجن

شہر کے لوگ اچھے ہیں ہمدرد ہیں، پر ہماری سنو ہم جہاں گرد ہیں
داغِ دل نہ کسی کو دکھانا سجن، یہ زمانہ نہیں وہ زمانہ سجن

اس کو مدت ہوئی صبر کرتے ہوئے، آج کوئے وفا سے گزرتے ہوئے
پوچھ کر اس گدا کا ٹھکانہ سجن،اپنے انشاؔ کو بھی دیکھ آنا سجن
--- 

رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانے تھے
دُھندلے دُھندلے چہرے تھے، پر سب جانے پہچانے تھے

ضدی، وحشی، الھڑ، چنچل، میٹھے لوگ، رسیلے لوگ
ہونٹ اُن کے غزلوں کے مصرعے، آنکھوں میں افسانے تھے

وحشت کی عنوان ہماری، ان میں سے جو نار بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے، اِنشاؔ جی دِیوانے تھے

یہ لڑکی تو ان گلیوں میں روز ہی گھوما کرتی تھی
اس سے ان کو ملنا تھا تو اس کے لاکھ بہانے تھے

ہم کو ساری رات جگایا، جلتے بجھتے تاروں نے
ہم کیوں اُن کے دَر پر اُترے، کتنے اور ٹھکانے تھے
اِنشاؔ 
۔۔۔

سب مایا ہے
سب مایا ہے سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اِس عشق میں ہم نے جو کھویا ہے جو پایا ہے
جو تم نے کہا ہے، فیضؔ نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے
ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی
یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رُسوائی
بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
سب مایا ہے
معلوم ہمیں قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی، یہ اِنشاؔ بھی
فرہاد بھی جو اِک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے
جب دیکھ لے ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اِس شہر سے دور ۔ ۔ ۔ اِک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اس اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے
--- 

سانحہ ہم پہ یہ پہلا ہے مری جاں کوئی؟
ایسے دامن سے ملاتا ہے گریباں کوئی؟

قیس صاحب کا تو اِس غم میں عجب حال ہوا
اپنے رستے میں نہ پڑتا ہو بیاباں کوئی

ہم نے اپنے کو بہت دَیر سنبھالا ہوتا
آ ہی نکلے اگر آنسو سرِ مژگاں کوئی؟

یارو اس درد محبت کی دوا بتلاؤ
ڈھونڈ لیں گے غم دوراں کا تو دَرماں کوئی

یک نظر دیکھنا، رم کرنا، ہوا ہو جانا
اُن سے چُھوٹی ہے بھلا غزالاں کوئی؟

ہم کسی سمت بھی نکلے ہوں وہیں جا نکلیں
ہم سے بھولی ہے رہِ کوچۂ جاناں کوئی؟

’اب تری یاد میں رؤئیں گے نہ حیراں ہوں گے‘
اُن سے پیماں ہے کوئی، دل سے ہے پیماں کوئی

دوستو دوستو اس شخص کو جا کر سمجھاؤ
اپنے انشاؔ کے سنبھلنے کا بھی ساماں کوئی

یہ بھی ہم لوگوں کی وَحشت پہ ہنسا کرتا تھا
آیا اس خانۂ ویراں میں بھی مہماں کوئی
---- 

ساون بھادوں ساٹھ ہی دن ہیں پھر وہ رُت کی بات کہاں
اپنے اشک مسلسل برسیں اپنی سی برسات کہاں

چاند نے کیا کیا منزل کرلی نکلا، چمکا ڈوب گیا
ہم جو آنکھ جھپک لیں سو لیں اے دل ہم کو رات کہاں

پیت کا کاروبار بہت ہے اب تو اور بھی پھیل چلا
اور جو کام جہاں کے دیکھیں فرصت دیں حالات کہاں

قیس کا نام سنا ہی ہوگا ہم سے بھی ملاقات کرو
عشق و جنوں کی منزل مشکل سب کی یہ اوقات کہاں
انشاؔ
--- 

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی؟
یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی؟

ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں رسا نہ ہوتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

دوستو! عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا در گزر نہیں ہوتی

بیقراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی

حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
انشاؔ
---- 

شہر دل کی گلیوں میں
شام کے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی
دل گداز تاریکی
جاں گداز تنہائی
رُوح و جاں کو ڈستی ہے
روح جاں میں بستی ہے
شہر دِل کی گلیوں میں
تاکِ شب کی بیلوں پر
شبنمیں سرشکوں کی
بے قرار لوگوں نے
بے شمار لوگوں نے
یادگار چھوڑی ہے
اتنی بات تھوڑی ہے؟
صد ہزار باتیں تھیں
حیلۂ شکیبائی تھیں
صورتوں کی زیبائی
قامتوں کی رعنائی
اِن سیاہ راتوں میں
ایک بھی نہ یاد آئی
جا بجا بھٹکتے ہیں
کس کی راہ تکتے ہیں
چاند کے تمنائی
یہ نگر کبھی پہلے
اِس قدر نہ ویراں تھا
کہنے والے کہتے ہیں
قریۂ نگاراں تھا
خیر اپنے جینے کا
یہ بھی ایک سامان تھا
آج دِل میں ویرانی
ابر بن کے گھر آئی
آج دِل کو کیا کہیے
باوفا نہ ہرجائی
پھر بھی لوگ دیوانے
آ گئے ہیں سمجھانے
اپنی وحشت دل کے
بن لیے ہیں افسانے
خوش خیال دُنیا نے
گرمیاں تو جاتی ہیں
وہ رُتیں بھی آتیں ہیں
جب ملول راتوں میں
دوستوں کی باتوں میں
جی نہ چین پائے گا
اَور اُوب جائے گا
آہٹوں سے گونجے گی
شہر دل کی پہنائی
اور چاند راتوں میں
چاندنی کے شیدائی
ہر بہانے نکلیں گے
آزمانے نکلیں گے
آرزو کی گیرائی
ڈھونڈنے کو رُسوائی
سرد سرد راتوں میں
زرد چاند بخشے گا
بے حساب تنہائی
بے حجاب تنہائی
شہر دِل کی گلیوں میں
ابن انشاؔ
--- 

اُن کا دعویٰ، اُن کی عدالت اور انہی کی تعزیرات
اُن کا دوست زمانہ سارا، اپنا دوست خدا کی ذات

اے یارو اس فصل میں اپنا جوش جنوں رُسوا نہ کرو
گلشن گلشن خاک اُڑتی ہے پھول نہ غنچے ڈال نہ پات

مہر و مروت میں وہ ہمارے پتھر کے بت اچھے تھے
آئے تھے اب لوٹ چلے ہیں حضرت یزداں تسلیمات

آپ ہی آپ پٹے جاتے ہیں اپنے پیادے اپنے فیل
ہم کیوں کھیلیں اس بازی میں ہاتھ ہمارے جیت نہ مات

ہم نے مانا اِک انٹی میں یوسفِ کنعاں ملتا ہے
وقت کے بوسیدہ چرخے پر اُمیدوں کا سوت نہ کات

انشاؔ صاحب صبح ہوئی ہے اُٹھو بھی اب کوچ کرو
اِس منزل پہ قافلے والے رُکتے ہیں بس رات کی رات
انشاؔ
--- 

وعدہ تو کیا ہے مگر ایفا نہ کریں گے
ایفا جو کریں گے کوئی اچھا نہ کریں گے

لوگوں سے چھپالیں گے جو احوال ہے جی کا
اپنے سے کسی بات میں دھوکا نہ کریں گے

اے دل ترے فرمانوں کو ٹالا ہے نہ ٹالیں
اُن کی بھی ترے سامنے پرواہ نہ کریں گے

اِس راہ کو ہم چھوڑ کے جائیں کسی جانب
آرزدہ نہ ہو ہم کبھی ایسا نہ کریں گے

لکھیں گے اُسی ٹھاٹ سے نظمیں، کبھی غزلیں
ہاں آج سے لوگوں کو دِکھایا نہ کریں گے
انشاؔجی
---- 

وہ جی میں کوئی بات جو لاتے ہیں عزیزو!
یہ سب نہ کریں گے، چلو اچھا نہ کریں گے

تنہائی میں لے جائیں گے سمجھائیں گے دل کو
یہ مان بھی جائے گا یہ دعویٰ نہ کریں گے

اتنا ہے کہ چھوڑیں گے یہ دیوانوں کی صورت
ہم کل سے سرراہ بھی بیٹھا نہ کریں گے

ہو جائیں گے جا کر کہیں پردیس میں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے

اس شہر میں آئندہ نہ دیکھیں گے وہ ہم کو
’’کیا کیا نہ کیا عشق میں، کیا کیا نہ کریں گے!‘‘
انشاؔ جی
---- 

وہ نہ جو قیدِ وصال میں آیا، جس نے جو چاہا سمجھا
ہم نے اسے محبوب بتایا، زاہد اُسے خدا سمجھا

ایک ہی جل کے روپ تھے سارے، ساگر، دریا بادل
نا اُڑتا بادل یہ جانا، نا بہتا دریا سمجھا

آخر شب محمل بھی گزرا، محمل کے پیچھے بھی کوئی
میٹھی نیند میں سویا صحرا، پُروا کا جھونکا سمجھا

چلمن کے پیچھے کی چھایا، رنگوں کا طوفان بنی
اس نے تو چہرہ جھلکایا، دیکھنے والا کیا سمجھا

ایک ہی ذات کے دونوں پرتو، نور اور ظلمت تو اور ہم
ہم تو ہر حالت میں تیرے، تو بھی ہمیں اپنا سمجھا؟
انشاؔ
---- 

۱۔ یہ خلش کہاں سے ہوتی
تو کہے جائے گا کب تک کہ ہوا کچھ بھی نہیں
اے دل اس درد کی سنتے ہیں دوا کچھ بھی نہیں
کس لئے چین سے محروم ہیں اپنے شب و روز
کچھ سمجھ نہیں آتا، بخدا کچھ بھی نہیں
مہرباں بھی ہیں محبت بھی ہے اُن کو ہم سے
لوگ کہتے ہیں، مگر ہم کو پتا کچھ بھی نہیں
آزمائیں تو سہی جذب محبت انشاؔ
ان کی نظروں میں چلو مان لیا کچھ بھی نہیں
انشاؔ جی 
۔۔۔۔

یوں تو ہے وحشت جزوِ طبیعت ، ربط انہیں کم لوگوں سے
اب تو برس دن بعد بھی انشاؔ ملتے نہیں ہم لوگوں سے

کیوں تجھے ضد ہے وضع نبھائیں ، چاند نہ دیکھیں عید کریں
چھپ نہ سکے گا اے دلِ بریاں دیدۂ پرنم لوگوں سے

کیا ہوا خشت اُٹھا دے ماری یا سر دامن نوچ لیا
تم تو دوانے اس کے بہانے ہو چلے برہم لوگوں سے

عشق کریں تو جنوں کی تہمت ‘ دُور رہیں تو تو ناراض
اب یہ بتا ہم تجھ سے نبھائیں یا دلِ محرم لوگوں سے
۔۔۔۔ 

زمیں پہ سبزہ لہک رہا ہے‘ فلک پہ بادل دھواں دھواں ہے
مگر جو دل کے مزاج پوچھو‘ ہمارے دل کا عجب سماں ہے

درونِ سینہ غم جدائی کا داغ ہے اور کہاں کہاں ہے
اگر یہی بخت عاشقاں ہے فغاں ہے اے دوستو فغاں ہے

نہ ایسے آنے کی آرزو تھی نہ ایسے جانا ہماری خو تھی
ہمارے دل کی بھی آبرو تھی مگر وہ پہلا سا دل کہاں ہے

تم اس پہ حیراں ہو خوش خیالو! پرانے وقتوں کے نجد والو
وگرنہ ہم کو بھی کچھ گماں ہے، وگرنہ اپنی بھی داستاں ہے

تم اپنے انشاؔ کی راہ و منزل کو جانتے ہو پھر اس سے مطلب
وہ تنہا تنہا رواں دواں ہے کہ ہمرہِ اہلِ کارواں ہے

ابنِ انشاء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں