جون ایلیا کی تمام غزلیں حصہ سوم



آفرینش ہی فن کی ہے ایجاد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد

فن ہے زیاد سے بھی زیاد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد

ہے گماں ہی گماں کی بنیاد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد

تم بھی تو اک جہاں کرو ایجاد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد
  
خود بھی خود سے کبھی رہو آزاد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد

اور بھی ہم میں ہیں کئی افراد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد

کوئی بنیاد کی نہیں بنیاد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد

نہیں اندر جہاں جہاں آباد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد

سخت آفت رساں ہے یاد کی یاد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد

جو ہے استاد، وہ ہے بے استاد
یہی بابا الف کا ہے ارشاد
۔۔۔
آگے اَسپِ خونی چادر اور خونی پرچم نکلے
جیسے نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے

دور اپنی خوش ترتیبی کا راز بہت ہی یاد آیا
اب جو کتابِ شوق نکلالی سارے ورق برہم نکلے

عیب درازی اس قصے کی اِس قصے کو ختم کرو
کیا تم نکلے اپنے گھر سے اپنے گھر سے ہم نکلے

میرے قاتل میرے مسیحا میرے طرح لاثانی ہیں
ہاتھوں میں تو خنجر چمکیں، جیبوں سے مرہم نکلے

جونؔ شہادت زادہ ہوں میں اور خونی دل نکلا ہوں
میرا جلوس اس کے کوچے سے کیسے بے ماتم نکلے
۔۔۔
اے صبح! میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

سب میرے بغیر مطمئن ہیں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں

کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
گو اپنے ہزار نام رکھ لوں
پر اپنے سوا میں اور کیا ہوں

میں جرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں

میں اور اسی کی خواہش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں
اِک شخص جو مجھ سے وقت لے کر
آج آ نہ سکا تو خوش ہوا ہوں
ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
پھر سب سے یہ کہہ کے میں خدا ہوں
چِرکے تو تجھے دیے ہیں میں نے
پر خون بھی میں ہی تھوکتا ہوں
   
رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں

اے شخص! میں تری جستجو سے
بیزار نہیں تھک گیا ہوں

میں شام و سحر کا نغمہ گر تھا
اب تھک کر کراہنے لگا ہوں
کل پر ہی رکھو وفا کی باتیں
میں آج بہت بجھا ہوا ہوں
۔۔۔
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
صحن میں دھوپ پھیل جاتی ہے

سوچتا ہوں کہ تیری یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے

رنگ موسم ہے اور بادِ صبا
شہر کوچوں میں خاک اُڑاتی ہے

فرش پہ کاغذ پر اُڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے

میں بھی اِذنِ نوا گری چاہوں
بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے

آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہمنشیں! سانس پھول جاتی ہے

آج اِک بات تو بتاؤ مجھے
زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے

کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت
غور کرنے پر یاد آتی ہے

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اِک چیز ٹوٹ جاتی ہے
۔۔۔
ایک خوشبو ہے کہ نسرین و سُمن پاس نہیں
جو چمن سے ہے، چمن کی ہے، چمن پاس نہیں

اُس کی زلفوں کے ہر اِک تار سے کہیو یہ صبا
تجھ میں اِک اور بھی خم ہے جو شکن پاس نہیں

حق کے منکر ہیں، اناالحق کے بھی منکر، سو ہمیں
وہ سزا دیجیو جو دار و رسن پاس نہیں

عرض لایا ہوں یہی تجھ لبِ نُدرت کے حضور
وہ سخن کیجیو مجھ سے جو سخن پاس نہیں

کوچ ہے میرا طرف ارضِ خُتَن کی یارو
اور غزالانِ ختن ہیں کہ ختن پاس نہیں
۔۔۔
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں

تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں

داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
ہم ہیں مصروفِ انتظام مگر
جانے کیا انتظام کر رہے ہیں

ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم
ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں

اِک قتالہ چاہئے ہم کو
ہم یہ اعلانِ عام کر رہے ہیں

کیا بھلا ساغرِ سِفال کہ ہم
ناف پیالے کو جام کر رہے ہیں

ہم تو آئے تھے عرضِ مطلب کو
اور وہ اِحترام کر رہے ہیں

نہ اُٹھے آہ کا دُھواں بھی کہ وہ
کوئے دل میں خِرام کر رہے ہیں

اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے
بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں
ہم عجب ہیں کہ اس کے کوچے میں
بے سبب دُھوم دھام کر رہے ہیں
۔۔۔
بد دلی میں بے قراری کو قرار آیا تو کیا
پا پیادہ ہو کے کوئی شہ سوار آیا تو کیا

زندگی کی دھوپ میں مُجھا گیا میرا شباب
اب بہار آئی تو کیا، ابرِ بہار آیا تو کیا

میرے تیور بجھ گئے، میری نگاہیں جل گئیں
اب کوئی آئینہ رُو آئینہ دار آیا تو کیا

اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ مجھ پر اعتبار آیا تو کیا

اب مجھے خود اپنی بانہوں پر نہیں ہے اختیار
ہاتھ پھیلائے کوئی بے اختیار آیا تو کیا

وہ تو اب بھی خواب ہے، بیدار بینائی کا خواب
زندگی مَیں خواب میں اس کے گزار آیا تو کیا

ہم یہاں بیگانہ ہیں، سو ہم میں سے جونؔ ایلیا
کوئی جیت آیا یہاں اور کوئی ہار آیا تو کیا
۔۔۔
بند باہر سے مری ذات کا دَر ہے مجھ میں
میں نہیں خود میں، یہ اِک عام خبر ہے مجھ میں

اک عجب آمد و شُد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ، برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں

ہے مری عمر جو حیران تماشائی۔۔۔۔ ہے
اور اک لمحہ ہے جو زیر و زبر ہے مجھ میں

کیا ترستا ہوں کہ باہر کے کسی کام آئے
وہ اک انبوہ کہ بس خاک بسر ہے مجھ میں

ڈوبنے والوں کے دریا مجھے پایاب ملے
اس میں اب ڈوب رہا ہوں جو بھنور ہے مجھ میں

در و دیوار تو باہر کے ہیں ڈھینے والے
چاہے رہتا نہیں میں، پر مرا گھر ہے مجھ میں

میں جو پیکار میں اندر کی ہوں بے تیغ و زِرہ
آخرش کون ہے جو سینہ سِپر ہے مجھ میں

زخم ہا زخم ہوں اور کوئی نہیں خوں کا نشاں
کون ہے وہ جو مرے خون میں تر ہے مجھ میں
۔۔۔
بہت دل کو کُشادہ کر لیا کیا
زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا

تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی
تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا

ہنرمندی سے اپنی دل کا صفحہ
مری جان، تم نے سادہ کر لیا کیا

جو یک سر جان ہے، اس کے بدن سے
کہو کچھ استفادہ کر لیا کیا

بہت کترا رہے ہو مُغ بچوں سے
گناہِ ترکِ بادہ کر لیا کیا

یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیں
سفر جادہ بہ جادہ کر لیا کیا

اُٹھایا اک قدم تو نے نہ اس تک
بہت اپنے کو ماندہ کر لیا کیا

تم اپنی کج کُلاہی ہار بیٹھیں؟
بدن کو بے لبادہ کر لیا کیا

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
۔۔۔
دل میں اور دنیا میں اب نہیں ملیں گے ہم
وقت کے ہمیشہ میں اب نہیں ملیں گے ہم

اپنی بے تقاضائی اپنی وضع ٹھیری ہے
حالِ پُر تقاضا میں اب نہیں ملیں گے ہم

بُود یا نبود اپنی اِک گمان تھی اپنا
یعنی ’’یا‘‘ میں اور ’’یا‘‘ میں اب نہیں ملیں گے ہم

اب نہیں ملیں گے ہم کوچۂ تمنا میں
کوچۂ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم

ایک خواب تھا دیروز اک فُسون تھا امروز
اور کسی بھی فردا میں اب نہیں ملیں گے ہم

اب جنون ہے اپنا گوشہ گیرِ تنہائی
سو دیار و صحرا میں اب نہیں ملیں گے ہم

حرف زَن نہ ہوں گے لب جاوداں خموشی میں
ہاں کسی بھی معنی میں اب نہیں ملیں گے ہم

زندگی شتاباں ہے شہرِ خفتہ کی جانب
شہرِ شور و غوغا میں اب نہیں ملیں گے ہم

ایک حالِ ب حالی دل کا طَور ٹھہرا ہے
حالِ حالت افزا میں اب نہیں ملیں گے ہم
۔۔۔۔
دل ہے بسمل، پڑا تڑپتا ہے
اپنا قاتل پڑا تڑپتا ہے

اک مقابل طلب سرِ میداں
بے مقابل پڑا تڑپتا ہے

وہ طلب میں ہے جس کے محملِ رنگ
پسِ محمل پڑا تڑپتا ہے

راہِ منزل میں تھا جو رقص کُناں
سرِ منزل پڑا تڑپتا ہے

بس تڑپنے کی تھی ہَوَس جس کو
اب بہ مشکل پڑا تڑپتا ہے

کچھ تو احساس کر کہ تیرے حُضور
کیسا قابل پڑا تڑپتا ہے

میرِ محفل کا طور ہے بے طور
بیچ محفل پڑا تڑپتا ہے

اِک نفس ہے کہ دو نفس کے بیچ
ہو کے حائل پڑا تڑپتا ہے

نہ تو کوئی وصال ہے، نہ فراق
بس میاں، دل پڑا تڑپتا ہے
۔۔۔۔
دل میں کم کم ملال تو رکھیے
نسبتِ ماہ و سال تو رکھیے

آپ کو اپنی تمکنت کی قسم
کچھ لحاظِ جمال تو رکھیے

صبر تو آنے دیجیے دل کو
اپنا پانا محال تو رکھیے

جانے مجھ سے یہ کون کہتا ہے
آپ اپنا خیال تو رکھیے

رہے جاناں کی یاد تو دل میں
دشت میں اِک غزال تو رکھیے

ڈھونڈ کر لائیے کہیں سے ہمیں
اپنی کوئی مثال تو رکھیے

تیغ تو جونؔ پھینک دیجیے مگر
ہاتھ میں اپنے ڈھال تو رکھیے
حالتِ فرقتِ ہمیشہ میں
درمیاں کوئی حال تو رکھیے

آج دو لمحہ اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال تو رکھیے

ایک ناسور لے کے آیا ہوں
خواہشِ اندمال تو رکھیے

ایک شے احترامِ علم بھی ہے
اس کا کچھ کچھ خیال تو رکھیے

ڈھونڈ کر لائیے کہیں سے ہمیں
اپنی کوئی مثال تو رکھیے

ہے نگاہِ ہَوَس مِری حاضر
اپنے گالوں کو لال تو رکھیے

ناف پیالہ نہ آپ چھلکائیں
اس کو ہم پر حلال تو رکھیے

ہے وہ ناپید، ہو مگر خود میں
طورِ ہجر و وِصال تو رکھیے

جونؔ بے حال تو ہو لیکن آپ
حالتِ حالِ حال تو رکھیے
۔۔۔

فریاد سے غم دریغ رکھوں
میں گریے سے نم دریغ رکھوں

وہ غیرتِ شوق ہے کہ میں تو
آذر سے صنم دریغ رکھوں

مت پوچھ مری یگانہ رِندی
میں جام سے جَم دریغ رکھوں

ہوں دشت میں اُنس کے فروکش
آہو سے میں رَم دریغ رکھوں

ہے حرصِ زیانِ روشنائی
کاغذ سے قلم دریغ رکھوں

میں رشک زدہ خود اپنے لب سے
اُس لب کی قسم دریغ رکھوں

اک ایسا سفر ہے مجھ کو درپیش
جس سے میں قدم دریغ رکھوں

ہوں جس رہِ خم بہ خم کا رَہرَو
میں اس سے ہی خم دریغ رکھوں

جس شخص کا ہے بہا مری جان
میں اس سے دِرم دریغ رکھوں
۔۔۔۔

غم گساروں کو مجھ سے مطلب کیا
جو بھی ہونا تھا ہو چکا، اب کیا

پُرسشِ حال ہے، نہ رسمِ تپاک
ہو گیا ہوں بہت مقرب کیا

خود سے کرنا ہے سُوزِ فن کا سخن
ہیں مرے داغ سب مرتب کیا

ہو رہا ہوں یہاں وہاں رُو پوش
بستیاں ہو گئیں مہذب کیا

حالِ شعلہ وَرِ لبِ فریاد
راکھ بھی ہو سکے ترے لب کیا

وہ جو ہے، ہے عجب ہَوَس انگیز
ہے بہت پاک اس کا قالب کیا

کیا کہوں رزقِ اولِ شب کی
ہے مرا رزقِ آخرِ شب کیا

اب تو اپنے سے دور پار ہوں میں
تو اگر مل گیا مجھے، تب کیا

وار کاری ہے ساتھیو، یارو!
لو سنبھالو! سب چلے گئے کیا
چاہئے دفترِ ہمیشۂ بُود
یعنی ہونا ہے آخرش کب کیا

دل کو کرنا ہے زندگی دو پل
اس کا ہے نسخۂ مجرب کیا

کوئی معنی نہیں کسی شے کے
اور اگر ہوں بھی، تو میاں تب کیا

جونؔ، اور خون تھوکنے والے!
اب دکھانا تجھے ہے کرتب کیا
۔۔۔
ہے عجب تمہارا موسم دل و دیدہ رایگاناں
نہ وصالِ جان و جاناں، نہ فراقِ جان و جاناں

دمِ نیم شب سے پہلے نہ بکھر رہے یہ محفل
ہیں فروغِ شب کہاں گم وہ دراز داستاناں

نہیں جُز غبار کچھ بھی ترے دامنِ فضا میں
ہوئے گم کہاں بیاباں وہ غبار کارواناں

وہ پسِ دریچہ کب سے ہے اس آرزو میں یارو
کہ جمے ذرا گلی میں صفِ طعنہ برزباناں

رہے جس کی جیبِ سایہ بھی تہی نہ روشنی سے
وہی زندگی کریں گے ترے شعلہ آشیاناں

مری جان تجھ سے اب بھی نہیں بے معاملہ میں
میں گِلہ کناں ہوں کب سے، ہیں کہاں گلہ رساناں

حسرتِ رنگ آئی تھی، دل کو لگا کے لے گئی
یاد تھی، اپنے آپ کو یاد دلا کے لے گئی

خیمہ گہِ فراق سے خیمہ گہِ وصال تک
ایک اُداس سی ادا مجھ کو منا کے لے گئی

ہجر میں جل رہا تھا میں اور پگھل رہا تھا میں
ایک خُنک سی روشنی مجھ کو بجھا کے لے گئی

ایک شمیمِ پُر خیال شہرِ خیال سے ہمیں
خواب دکھا کے لائی تھی، خواب دکھا کے لے گئی

دل کو بس اِک تلاش تھی بے سروکارِ دشت و دَر
ایک مہک سی تھی کہ بس رنگ میں لا کے لے گئی

یاد، خراب و خستہ یاد، بے سرو سازو نا مراد
جانے قدم قدم کہاں مجھ کو چلا کے لے گئی

یار، خزاں خزاں تھا میں، ایسی فضائے زرد میں
نکہتِ یادِ سبز فام مجھ کو خود آ کے لے گئی

دشتِ زیان و سود میں بوُد میں اور نبود میں
محمل نازِ عشوہ گر مجھ کو بٹھا کے لے گئی

محفلِ رنگِ طَور میں خونِ جگر تھا چاہیے
وہ مری نوش لَب مجھے زہر پلا کے لے گئی

سیل حقیقتوں کے تھے، دل تھا کہ میں کہاں ٹلوں
اور گماں کی ایک رَو آئی اور آ کے لے گئی

تو کبھی سوچنا بھی مت تو نے گنوا دیا مجھے
مجھ کو مرے خیال کی موج بہا کے لے گئی

صرصرِ وقت لے گئی ان کو اُڑا کے ناگہاں
اور نہ جانیے کہاں اُڑا کے لے گئی

موجِ شمالِ سبز فام قریۂ درد سے مجھے
جادہ بہ جادہ، کو بہ کو، دُھوم مچا کے لے گئی
۔۔۔۔

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں
اور مجھ دل کی بدن آزاریاں

ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر
تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں

اُف، شکن ہائے شکم، جانم تیری
کیا کٹاریں ہیں، کٹاریں کاریاں

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ
پھر تری مجبوریاں، ناچاریاں

تشنہ لب ہے کب سے دل سا شیر خوار
تیرے دُودھوں سے ہیں چشمے جاریاں

دُکھ غرورِ حُسن کے جانا ہے کون
کس نے سمجھیں حسن کی دشواریاں

اپنے درباں کو سنبھالے رکھیے
ہیں ہَوَس کی اپنی عزت داریاں

ہیں سِدھاری کون سے شہروں کی طرف
لڑکیاں وہ دل گلی کی ساریاں

خواب جو تعبیر کے بس کے نہ تھے
دوستوں نے ان پہ جانیں واریاں

خلوتِ مضرابِ سازِ ناز میں
چاہئیں ہم کو تیری سِسکاریاں

لفظ و معنی کا بہم کیوں ہے سخن
کس زمانے میں تھیں ان میں یاریاں

مجھ سے بد طَوری نہ کر او شہریار
میرے جوتوں کے ہیں تلوے خاریاں

کھا گئیں اُس ظالمِ مظلوم کو
میری مظلومی نما عیاریاں
۔۔۔
ہم بہ صد ناز دل و جاں میں بسائے بھی گئے
پھر گنوائے بھی گئے اور بُھلائے بھی گئے

ہم ترا ناز تھے، پھر تیری خوشی کی ظاطر
کر کے بے چارہ ترے سامنے لائے بھی گئے

کج ادائی سے سزا کچ کُلہی کی پائی
میرِ محفل تھے، سو محفل سے اُٹھائے بھی گئے

کیا گِلہ خون جو اَب تھوک رہے ہیں جاناں
ہم ترے رنگ کے پَرتَو سے سجائے بھی گئے

ہم سے رُوٹھا بھی گیا، ہم کو منایا بھی گیا
پھر سبھی نقش تعلق کے مٹائے بھی گئے

جمع و تفریق تھے ہم مکتبِ جسم و جاں کے
کہ بڑھائے بھی گئے، اور گھٹائے بھی گئے

جونؔ! دل‘ شہرِ حقیقت کو اُجاڑا بھی گیا
اور بھی شہر توہم کے بسائے بھی گئے
۔۔۔۔
جونؔ گزشتِ وقت کی حالت پر سلام
اُس کے فراق کو دعا اُس کے وِصال پر سلام

تیرا ستم بھی تھا کرم، تیرا کرم بھی تھا ستم
بندگی تیری تیغ کو، اور تیری ڈھال پر سلام

سود و زَیاں کے فرق کا اب نہیں ہم سے واسطہ
روز و شب زمانۂ شوقِ مَحال پر سلام
اب تو نہیں ہے لذتِ ممکنِ شوق بھی نصیب
روز و شبِ زمانۂ شوقِ محال پر سلام

ہجرِ سوال کے ہیں دنِ، ہجرِ جواب کے ہیں دن
اُس کے جواب پر سلام، اپنے سوال پر سلام
جانے وہ رنگِ مستیٔ خواب و خیال کیا ہوئی
عشرتِ خواب کی ثنا، عیشِ خیال پر سلام
اپنا کمال تھا عجب اپنا زوال تھا عجب
اپنے کمال پر دَرُود، اپنے زوال پر سلام
۔۔۔

کیسا دل اور اس کے کیا غم جی
یونہی باتیں بناتے ہیں ہم جی

کیا بھلا آستین اور دامن
کب سے پلکیں بھی اب نہیں نم جی

اُس سے اب کوئی بات کیا کرنا
خود سے بھی بات کیجیے کم کم جی

دل جو دل کیا تھا ایک محفل تھا
اب ہے درہم جی اور برہم جی

بات بے طَور ہو گئی شاید
زخم بھی اب نہیں ہے مرہم جی

ہار دنیا سے مان لیں شاید
دل ہمارے میں اب نہیں دم جی

آپ سے دل کی بات کیسے کہوں
آپ ہی تو ہیں دل کے محرم جی

ہے یہ حسرت کہ ذبح ہو جاؤں
ہے شکن اس شکم کی ظالم جی

کیسے آخر نہ رنگ کھیلیں ہم
دل لہو ہو رہا ہے جانم جی

وقت دم بھر کا کھیل ہے اس میں
بیش از بیش ہے کم از کم جی

ہے ازل سے ابد تلک کا حساب
اور بس ایک پل ہے پیہم جی

بے شکن ہو گئی ہیں وہ زلفیں
اس گلی میں نہیں رہے خم جی

دشتِ دل کا غزال ہی نہ رہا
اب بھلا کس سے کیجیے رَم جی
۔۔۔۔

خلوتِ جاں کی زندگی نذرِ سفر تو ہو گئی
یعنی ہماری آرزو خاک بسر تو ہو گئی

سوزِ فُغانِ حال سے جل گئے لب مرے مگر
اہلِ محلۂ فراق، تم کو خبر تو ہو گئی

ہے مرا خواب پُر عذاب، سب کے ہیں خواب مہرتاب
میری سحر نہیں ہوئی سب کی سحر تو ہو گئی

وصل و فراق کیا بھلا، وقت تو سہہ لیا گیا
اس کی گذر تو ہو گئی، میری بسر تو ہو گئی

دل ہمہ زخم زخم ہے، جاں ہمہ داغ داغ ہے
پیکرِ پُر نگار پر ایک نظر تو ہو گئی

سوئے شمالِ سبز سے آئی تھی ایک سرخ موج
تعنی نشاطِ دل کی یاد، خون میں تر ہو گئی

تجھ کو بھلا گلہ ہے کیوں، تو جو ہے زار اور زبوں
جونؔ تری مہم جو تھی، ہار کے سر تو ہو گئی
۔۔۔۔
خود سے ہم اک نَفَس ہلے بھی کہاں
اُس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں
غم نہ ہوتا جو کھِل کے مرجھاتے
غم تو یہ ہے کہ ہم کھِلے بھی کہاں

خیمہ خیمہ گزار لے یہ شب
صبح دم یہ قافلے بھی کہاں
آگہی ن کیا ہو چاک جسے
وہ گریباں بھلا سِلے بھی کہاں

اب تامل نہکر دلِ خود کام
روٹھ لے، پھر یہ سلسلے بھی کہاں

آؤ،، آپس میں کچھ گلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گلے بھی کہاں

خوش ہو سینے کی اِن خراشوں پر
پھر تنفس کے یہ سلے بھی کہاں
۔۔۔۔
کتنے عیش اُڑاتے ہوں گے، کتنے اِتراتے ہونگے
جانے کیسے لوگ وہ ہونگے جو اُس کو بھاتے ہونگے

شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہونگے

اُس کی یاد کی بادِ صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے

وہ جو نہ آنے والا ہے نا، اُس سے ہم کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب، آتے ہیں آتے ہونگے

یارو! کچھ تو حال سناؤ اُس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے اُس میں وہ تو مر جاتے ہونگے

بند رہے جن کا دروازہ ایسے گھروں کی مت پوچھو
دیواریں گر جاتی ہوں گی، آنگن رہ جاتے ہوں گے

میرے سانس اُکھڑتے ہی سب بین کریں گے رؤئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی، سانس لیے جاتے ہوں گے۔۔۔۔
کتنے سوال اُٹھتے رہتے تھے، ان کے جوابوں کے تھے ہم
کس کا دل، کیسی دل داری، اپنے حسابوں کے تھے ہم

تھا وہ گماں کی روشنیوں میں روشنیوں کا ایک گماں
خواب کی اک رُوداد تھی ساری، خواب تھے خوابوں کے تھے ہم

جانے کون زمانے تھے وہ جن میں تھی دل کی گذران
لکھتے ہیں یوں اپنے کتبے جیسے کتابوں کے تھے ہم

ہے یہ بادِ زرد کے چلنے سے کچھ پہلے کا مذکور
تھے اپنے رُخسار گلابی، اپنے گلابوں کے تھے ہم

تھی اک بے بنیاد تمنا، اک بربادی بے شکوا
جب تک تھے ہم بس یوں سمجھو، سخت عذابوں کے تھے ہم

اک دوپہر کا قصہ ہے جب شہر وہ ہم نے چھوڑا تھا
اس کے بعد کچھ ایسی بیتی، شام شرابوں کے تھے ہم

کاش کوئی رُوداد ہماری آن کے سن جائے ہم سے
رنگ میں اس کے تیر رہے تھے اور سرابوں کے تھے ہم
۔۔۔۔
کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں
شہر میں ایک شور ہے اور کوئی صدا نہیں

آج وہ پڑھ لیا گیا جس کو پڑھا نہ جا سکا
آج کسی کتاب میں کچھ بھی لکھا ہوا نہیں

اپنے سبھی گلے بجا، پر ہے یہی کہ دل رُبا
میرا ترا معاملہ عشق کے بس کا تھا ہی نہیں

خرچ چلے گا اب مرا کس کے حساب میں بھلا
سب کے لیے بہت ہوں میں، اپنے لیے ذرا نہیں

جائیے خود میں رایگاں اور وہ یوں کہ دوستاں
ذات کا کوئی ماجرا، شہر کا ماجرا نہیں

سینہ بہ سینہ لب بہ لب ایک فراق ہے کیا ہے
ایک فراق ہے کہ ہے، ایک فراق کیا نہیں
اپنا شمار کیجیو اے مری جان! تو کبھی
میں نے بھی اپنے آپ کو آج تلک گِنا نہیں

تو وہ بدن ہے جس میں جان، آج لگا ہے جی مرا
جو تو کہیں لگا ترا، سن، ترا جی لگا نہیں

نام ہی نام چار سو، ایک ہجوم رُوبرو
کوئی تو ہو مرے سوا، کوئی مرے سوا نہیں

اپنی جبیں پہ میں نے آج دیں کوئی بار دستکیں
کوئی پتا بھی ترا، میرا کوئی پتا نہیں
۔۔۔۔
کچھ بھی ہوا پر اپنے ساتھ اپنی گذر تو ہو گئی
چاہے کسی طرح ہوئی، عمر بسر تو ہو گئی
اس کا نہ تھا کوئی ملال اور نہ کوئی حالِ حال
شام گہِ ملال میں مجھ کو خبر تو ہو گئی

رودِ فغانِ خامشی دل میں ہے ایک موج زن
ایک عجیب واردات لب کے اُدھر تو ہو گئی

سمتِ گماں کی تھی عطا ایک ہوائے عنبرین
رہے سفر کی جونؔ زادِ سفر تو ہو گئی
ہے شبِ دل میں خیمہ زن ایک سرودِ روشنی
تم کو سَحَر کی تھی ہوس، جونؔ سَحَر تو ہو گئی

اس کو نہیں تھا میرا پاس، جاتے ہوئے نگاہ سے
مجھ کو خوشی ہے روزیِ دیدۂ تر تو ہو گئی

اب لبِ پُر نَفَس سے ہے اپنا گذر نَفَس نَفَس
اپنے لیے اک آپ میں، راہ گذر تو ہو گئی

تمکنت خیال میں، میں نے کہا کہ تم ہو کیا
یعنی کہ اک گزارشِ بارِ دِگر تو ہو گئی
پُر سُخناں پُرسکوت، شکوہ کُناں ہو کس لیے
عرضِ ہُنر کیے بغیر عرضِ ہُنر تو ہو گئی
۔۔۔۔



،میخانہ طرف آیا، یاراں! دل و جاں انگیز
وہ تشنہ لباں ہم دَم، نہ جُرعہ کشاں انگیز

پہنچا ہے میانِ شہر، بادل زدگانِ شہر
وہ عشرتیاں آشوب، وہ حسرتیاں انگیز

شوریدہ سَراں درپس، خونیں جگراں درپیش
گل گشت کو نکلا ہے، وہ جانِ جہاں انگیز

حلقے میں در آیا ہے کیا کوئی فراغت دوست؟
ہے سخت براشفتہ، وہ محنتیاں انگیز

خود مست ہے اور کتنا، تر دست ہے اور کیسا
وہ خود نگراں افگن، وہ منتظراں انگیز

ہے دَیر بھی فریادی، کعبہ بھی ہے زِنہاری
کس دُھوم سے آیا وہ، یزداں شکناں انگیز

اے دل وہ بُتِ شنگل، کیا طُرفہ ادا ہوگا
میں ذکر سے جس کے ہوں، یاں مجلسیاں انگیز
۔۔۔۔
مژہ خونیں تو چہرہ زرد نکلا
دل اس کرتب میں اپنے فرد نکلا

سبھی ویران تھے گھر اور گلیاں
کہیں سے اِک سگِ ولگرد نکلا

ندا آئی کہ یہ شہرِ بَلا ہے
پھر اَنبوہِ سگانِ زرد نکلا

میں نکلا تھا سُراغِ شہرِ دل کو
مگر واں دل ہی خود پے گرد نکلا

حضورِ موئے زیرِ ناف یہ دل
عجب کمبخت تھا، نا مرد نکلا

ہَوَس کا مجھ میں اِک دوزخ تھا لیکن
شبِ اول میں بالکل سرد نکلا

بھلایا اس نے کس کس کو نہ جانے
میاںِ یہ دل بڑا بے درد نکلا

میں سچ مچ اس کو کر ڈالوں گا برباد
جو دشمن کا مرے ہم درد نکلا

اگرچہ جاہلِ مطلق تھا غالبؔ
پہ ہم میں سے کوئی میں فرد نکلا
۔۔۔۔
مجھ کو آپ اپنا آپ دیجیے گا
اور کچھ نہ مجھ سے لیجیے گا

آپ جو ہیں ازل سے ہی بے نام
نام میرا کبھی تو لیجیے گا

آپ بس مجھ میں ہی تو ہیں، سو آپ
میرا بے حد خیال کیجیے گا

ہے اگر واقعی شراب حرام
آپ ہونٹوں سے میرے پیجیے گا

انتظاری ہوں اپنا میں دن رات
اب مجھ آپ بھیج دیجیے گا

آپ مجھ کو بہت پسند آئیں
آپ میری قمیص سی جیے گا

دل کے رشتے ہیں جونؔ جھوٹ کے سچ
یہ معما کبھی نہ بوجھیے گا

ہے مرے جسم و جاں کا ماضی کیا
مجھ سے بس یہ کبھی نہ پوچھیے گا

مجھ سے میری کمائی کا سرِ شام
پائی پائی حِساب لیجیے گا

زندگی کیا ہے اک ہنر کرنا
سو، قرینے سے زہر پیجیے گا

میں جو ہوں، جونؔاِیلیا ہوں جناب
اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا
۔۔۔۔
مجھے غرض ہے مری جان غُل مچانے سے
نہ تیرے آنے سے مطلب، نہ تیرے جانے سے

عجیب ہے مری فطرت کے آج ہی مثلاََ
مجھے سُکون ملا ہے ترے نہ آنے سے

اِک اجتہاد کا پہلو ضرور ہے تجھ میں
خوشی ہوئی ترے نا وقت مسکرانے سے

یہ میرا جوشِ محبت فقط عبارت ہے
تمہاری چمپئی رانوں کو نوچ کھانے سے
مہذب آدمی پتلون کے بٹن تو لگا
کہ اِرتقا ہے عبارت بٹن لگانے سے
۔۔۔۔
نہ دو نوید، خوش انجام ڈر گئے ہیں یہاں
دلوں پہ وَصل کے صدمے گذر گئے ہیں یہاں

جُدا جُدا رہو یارو، جو عافیت ہے عزیز
کہ اختلاط کے جلسے بکھر گئے ہیں یہاں

ہے تیر جبر میں وہ لطفِ اختیار کے بس
تمام حُکم دلوں میں اُتر گئے ہیں یہاں

عجب طلسم ہے کچھ شہرِ سر شناسی کا
اُدھر جو پاؤں اُٹھے تو سر گئے ہیں یہاں

امیرِ شہر بہت ناسپاس ہے ترا شہر
ہوا ہے جشن تو چہرے اُتر گئے ہیں یہاں

جو دوسروں کے تکلم میں جان ڈالتے تھے
وہ لوگ اپنے ہی ہونٹوں پہ مر گئے ہیں یہاں
رنگ آ جائے گا، رنگیں نظراں آئیں کہیں
بزم بے رنگ ہے، خونیں جگراں آئیں کہیں
 ۔۔۔۔
نہیں اب یاد میں اس شوخ کی فریاد و فغاں
شہر خاموش ہے شوریدہ سراں آئیں کہیں

بجھ نہ جائیں کہیں اب شمع کے ساتھ آنکھیں بھی
حالتِ آخرِ شب خوش خبراں آئیں کہیں

کس سے محرومیِ دیدار کا چھیڑوں میں سخن
دید کم کم ہے یہاں، دیدہ وَراں آئیں کہیں

حالتِ حال میں بسمل ہے عَبَث کی محفل
اب دمِ رقص ہے قاتل کَمَراں آئیں کہیں

طرفِ عشق سے کچھ اہلِ ہوس نکلے تھے
سِپر انداز ہیں سب، بے سِپراں آئیں کہیں
۔۔۔۔
رونق گرانِ کوچۂ جاناں چلے گئے
سامانیانِ بے سروساماں چلے گئے

تھیں رونقیں کبھی جو شبوں کی وہ اب کہاں
خوابیدہ گردِ شہرِ نگاراں چلے گئے

کر تہنیت قبول، ترے آستانے سے
دشوار تر تھے جو، بہت آساں چلے گئے

لب جُنبشی کی اور ہی صورت ہو اب کوئی
بزمِ نوا کے پردہ شناساں چلے گئے

اب آپ صبح و شام مسیحائی کیجیے
وہ چارہ نا پذیر میاں جاں چلے گئے

اب دیر باوروں کا کیا کیجیے سُراغ
وہ زُود باورانِ اداب داں چلے گئے

اے سمتِ عنبرینِ شبِ انتظارِ یار
وہ انتظاریانِ صد ارماں چلے گئے

اس کا بدن عجب ہَوس انگیز ہے کہ ہے
ہم تو میاں چلے بھی گئے، ہاں چلے گئے

اُس ہندنی نے ایسی جفائیں کریں کہ بس
ہندو تھے ہم، سو ہو کے مسلماں چلے گئے

تھا جونؔ اس کا ناف پیالہ کہ مے کدہ
بس لڑکھڑا کے تشنہ لباناں چلے گئے۔۔۔۔
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اُداسی کہاں سے آتی ہے

ہے وہ یک سر سپردگی تو بھلا
بدحواسی کہاں سے آتی ہے

وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں
نا سپاسی کہاں سے آتی ہے

دل ہے شب سوختہ سو اے اُمید
تو ندا سی کہاں سے آتی ہے

شوق میں عیشِ وصل کے ہنگام
ناسپاسی کہاں سے آتی ہے

ایک زندانِ بے دلی اور شام
یہ صبا سے کہاں سے آتی ہے

تو ہے پہلو میں پھر تیری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے
میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری
تو نِراسی کہاں سے آتی ہے
۔۔۔۔
سارے رشتے بھلائے جائیں گے
اب تو غم بھی گنوائے جائیں گے

جانیے کس قدر بچے گا وہ
اس سے جب ہم گھٹائے جائیں گے

اس کو ہوگی بڑی پشیمانی
اب جو ہم آزمائے جائیں غے

کیا غرضؔ دَورِ جام سے ہم کو
ہم تو شیشے چبائیں جائیں گے

میری اُمید کو بجا کہہ کر
سب مرا دکھ بڑھائے جائیں گے

کم سے کم تجھ گلی میں جاناں
دُھوم تو ہم مچائے جائیں گے

زخم پہلے کے اب مفید نہیں
اب نئے زخم کھائے جائیں گے

شاخسارو! تمہارے سارے پرند
اک نَفَس میں اُڑائے جائیں گے

ہم جو اب تک کبھی نہ پائے گئے
کن زمانوں میں پائے جائیں گے

آگ سے کھیلنا ہے شوق اپنا
اب تیرے خط جلائے جائیں گے

جمع کیا ہے ہم نے غم دل میں
اس کا اب سود کھائے جائیں گے

شہر کی محفلوں میں ہم اور وہ
ساتھ اب کیوں بلائے جائیں گے

آگ سے کھیلنا ہے شوق اپنا
اب ترے خط جلائے جائیں گے

یہ نکمے تمہارے کوچے کے
جانے کیا کچھ کمائے جائیں گے

ہے ہماری رسائی اپنے میں
ہم خود اپنے میں آئے جائیں گے

ہم نہ ہو کر بھی شہرِ بودِش میں
آئے جائیں گے، جائے جائیں گے

مجھ سے کہتا تھا کل یہ شاہِ بلوط
سارے سایے جلائے جائیں گے

جونؔ یوں ہے کہ آج کے موسیٰ
آگ بس آگ لائے جائیں گے
۔۔۔۔
شمشیر میری، میری سِپر کس کے پاس ہے
دو میرا خود، پر، مِرا سر کس کے پاس ہے

درپیش ایک کام ہے ہمت کا ساتھیو!
کسنا ہے مجھ کو، میری کمر کس کے پاس ہے

طاری ہو مجھ پہ کون سی حالت مجھے بتاؤ
میرا حسابِ نفع و ضرر کس کے پاس ہے

اے اہلِ شہر میں تو دُعا گوئے شہر ہوں
لب پر مرے دعا ہے، اثر کس کے پاس ہے

داد و سِتد کے شہر میں ہونے کو آئی شام
خواہش ہے میرے پاس، خبر کس کے پاس ہے

پُر حال ہوں، پہ صورتِ اَحوال کچھ نہیں
حیرت ہے میرے پاس، نظر کس کے پاس ہے

اِک آفتاب ہے مری جیبِ نگاہ میں
پہنائی نمودِ سحر کس کے پاس ہے

مہمانِ قصر ہیں ہمیں کچھ رمز چاہئیں
یہ پوچھ کر بتاؤ کھنڈر کس کے پاس ہے

اُتھلا سا ناف پیالہ ہماری نہیں تلاش
اے لڑکیو! بتاؤ بھنور کس کے پاس ہے

ناخن بڑھے ہوئے ہیں میرے، مجھ سے کر حَذر
یہ جا کے دیکھ نیل کٹر کس کے پاس ہے

یارا اجراا مزارۂ شہر حرامیاں
اس شہر کی کُلیدِ ہنر کس کے پاس ہے
۔۔۔۔
شوق کا رنگ بجھ گیا، یاد کے رنگ بھر گئے
کیا مری فصل ہوچکی، کیا مرے دن گزر گئے
ہم بھی حجاب در حجاب چھپ نہ سکے، مگر رہے
وہ بھی ہجومِ در ہجوم رہ نہ سکے، مگر رہے

رہ گذرِ خیال میں دو بدوش تھے جو لوگ
وقت کی گردباد میں جانے کہاں بکھر گئے
شام ہے کتنی بے تپاک‘ شہر ہے کتنا سہم ناک
ہم نفسو! کہاں ہو تم، جانے یہ سب کدھر گئے
پاسِ حیات کا خیال ہم کو بہت بُرا لگا
پس بہ ہجومِ معرکہ جان کے بے سِپر گئے
آج کی شام ہے عجیب، کوئی نہیں مرے قریب
آج سب اپنے گھر رہے، آج سب اپنے گھر گئے
خوابِ طلائیِ خیال، دل کا زیاں تھا اور ملال
ہوش کے باوجود ہم خواب و خیال پر گئے

میں تو صفوں کے درمیاں، کب سے پڑا ہوں نیم جاں
میرے تمام جانثار میرے لیے تو مر گئے
تھا جو نَفَس نَفَس کارن اُس میں تھی شورشِ بَزَن
زخم بغیر واں سے ہم خون میں تر بہ تر گئے
شاہدِ روزِ واقعہ صورتِ ماجرا ہے کیا
کتنے جَتھے بکھر گئے، کتنے ہجوم مر گئے

رونقِ بزمِ زندگی! طرفہ ہیں تیرے لوگ بھی
اک تو کبھی آئے نہ تھے، گئے تو روٹھ کر گئے
خوش نفسانِ بے نوا، بے خبرانِ خوش ادا
تیرہ نصیب تھے مگر شہر میں نام کر گئے
آپ میں اب جونؔ ایلیا، سوچئے اب دھرا ہے کیا
آپ بھی اب سدھاریے، آپ کے چارہ گر گئے
۔۔۔۔
سلسلہ جُنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی
ایک آواز ابھی آئی تھی، وہ آواز ہَوا کی تھی

بے دنیائی نے اس دل کی اور بھی دنیا دار کیا
دل پر ایسی ٹوٹی دنیا، ترک ذرا دنیا کی تھی

اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں
خون بھی تھوکا، سچ مچ تھوکا اور یہ سب چالاکی تھی

اپنے آپ سے جب میں گیا ہوں، تب کی روایت سنتا ہوں
آ کر کتنے دن تک اس کی یاد مجھے پوچھا کی تھی

ہوں سودائی سودائی سا جب سے میں نے جانا ہے
طے وہ راہِ سر سودائی میں نے بے سودا کی تھی

گرد تھی بے گانہ گردی کی جو تھی نگہ میری، تاہم
جب بھی کوئی صورت بچھڑی، آنکھوں میں نمناکی تھی

ہے یہ قصہ کتنا اچھا، پر میں اچھا سمجھوں تو
ایک تھا کوئی جس نے یک دَم یہ دُنیا پیدا کی تھی
۔۔۔۔
اتو اگر آئیو تو جائیو مت
اور اگر جائیو تو آئیو مت

پاسِ حالات ہے ضرور سو تو
مسکراؤ تو مسکرائیو مت

اک قیامت عذاب ہے یہ زمیں
تو اسے آسماں پہ ڈھائیو مت

جا رہے ہو تو جاؤ لیکن اب
یاد اپنی مجھے دلائیو مت

دل ہے خوابِ زمردینِ خیال
تو اسے اب کبھی جگائیو مت

ہے مرا یہ ترا پیالۂ ناف
اسے تو غیر کو پلائیو مت

گوشہ گیرِ غبارِ دشتِ اُمید
تو کبھی اپنا گھر بسائیو مت

میری تو خود تجھی سے دُوری ہے
سو، مجھ تو گلے لگائیو مت

شبِ ظلمانیِ سَحَر ناپَید
مختصر داستاں سنائیو مت

یہ لَہو تُھوکنا ہے اِک پیشہ
کوئی پیشہ وَری دکھائیو مت

کیا بھلا جُز خیال ہیں ہم تم
مجھ سے اپنے کو تو چھڑائیو مت

جاودانی ہے بات لمحوں کی
تو مجھے روز روز بھائیو مت

دینِ دل میں جہاد ہے ممنوع
تو یونہی اپنا سر کٹائیو مت

ہیں یہ لمحات، جاوداں جانی
اپنی بے چینیاں دبائیو مت

شوق کا اک بجار ہوں میں تو
تم کبھی بھی مجھ سَدھائیو مت
۔۔۔۔

تو نے مستی وجود کی کیا کی
غم میں بھی تھی جو اِک خوشی کیا کی

ناز بردارِ دلبراں اے دل
تو نے خود اپنی دلبری کیا کی

آ گیا مصلحت کی راہ پہ تو
اپنی ازخود گذشتگی کیا کی

رہروِ شامِ روشنی تو نے
اپنے آنگن کی چاندنی کیا کی

تیرا ہر کام اب حساب سے ہے
بے حسابی کی زندگی کیا کی

یوں ہی پھرتا ہے تو جو راہوں میں
دل محلے کی وہ گلی کیا کی

اِک نہ اِک بات سب میں ہوتی ہے
وہ جو اِک بات تجھ میں تھی، کیا کی

جل اُٹھا دل، شمالِ شام مرا
تو نے بھی میری دل دہی کیا کی

نہیں معلوم ہو سکا دل نے
اپنی اُمیدِ آخری کیا کی

جونؔ دُنیا کی چاکری کر کے
تو نے دل کی وہ نوکری کیا کی
۔۔۔۔
  اُٹھ سمادھی سے دھیان کی، اُٹھ چل
اس گلی سے گمان کی، اُٹھ چل

مانگتے ہوں جہاں لہو بھی اُدھار
تو نے واں کیوں دکان کی، اُٹھ چل

بیٹھ مت ایک آستاں پہ ابھی
عمر ہے یہ اُٹھان کی، اُٹھ چل

کسی بستی کا ہو نہ پابستہ
سیر کر اِس جہان کی، اٹھ چل

بیٹھ مت ایک آستاں ابھی
عمر ہے یہ اُٹھان کی، اُٹھ چل
جسم میں پاؤں ہیں ابھی موجود
جنگ کرنا ہے جان کی، اُٹھ چل

تو ہے بے حال اور یہاں سازش
ہے کسی امتحان کی، اُٹھ چل

کیا ہے پردیس کو جو دیس کہا
تھی وہ لکنت زبان کی، اُٹھ چل

دل ہے جس غم ہمیشگی کا اسیر
ہے وہ بس ایک آن ہی، اُٹھ چل

ہے سیارے ابھی مداروں میں
یہ گھڑی ہے اَمان کی اُٹھ چل
ہر کنارہ خرامِ موج تجھے
یاد کرتی ہے بان کی، اُٹھ چل
۔۔۔۔
وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہئے ہمیں
اُس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں

ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم
چارہ گرو، تمہاری دوا چاہیے ہمیں

پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زبان سے
اک دن جو پوچھ بیٹھیے کیا چاہیے ہمیں

جانا نہیں گھر سے نکل کے کہیں مگر
ہر ماہ رُو کے گھر کا پتہ چاہیے ہمیں

کہنے کو حق نِگر ہیں حقیقت ہے آرزو
سچ پوچھیے اگر تو خُدا چاہیے ہمیں

ہم موجۂ شمیم کی صورت برہنہ ہیں
تو رنگ بن کے آ کہ رِدا چاہیے ہمیں

اندازۂ صدائے جَرَس سے حُصول کیا
واماندگاں ہیں، دوشِ صبا چاہیے ہمیں

مدت سے ہم کسی کو نہیں دے سکے فریب
اے شہرِ اِلتفات، وفا چاہیے ہمیں

ہر آن آخری ہے مگر اس کے باوجود
اس آن بھی یقینِ فنا چاہیے ہمیں
۔۔۔۔
وہ یقیں ہے نہ گماں ہے تننا ھُو یاھُو
جانِ جانانِ جہاں ہے تننا ھُو یاھُو

کون آشوب گرِ دیر و حرم ہے آخر
جو یہاں ہے نہ وہاں ہے تننا ھُو یاھُو

کس نے دیکھا ہے مکاں اور زماں کو یارا!
نہ مکاں ہے نہ زماں ہے تننا ھُو یاھُو

میں جو اک فاسق و فاجر ہوں جو زندیقی ہوں
رمزِ ’حق‘ مجھ میں نہاں ہے تننا ھُو یاھُو

کیا بھلا سود و زیاں، سود و زیاں کیا معنی
کچھ نہ ارزاں نہ گراں ہے تننا ھُو یاھُو

سینۂ وقت قیامت کا ہے چھلنی لیکن
نہ کمیں ہے نہ کماں ہے تننا ھُو یاھُو

مفلساں! دل سے خداوند تمہارے پہ دُرود
کیا ہی روزینہ رساں ہے تننا ھُو یاھُو

یہ جو منعم ہیں انھیں کا تو ہے فتنہ سارا
اور دین ان کی دکاں ہے تننا ھُو یاھُو

یار کا ناف پیالہ تو بلا ہے یاراں
حشر محشر طلباں ہے تننا ھُو یاھُو

خون ہی تھوک رہا ہوں میں بچھڑ کے اس سے
وہی تو رنگ رساں ہے تننا ھُو یاھُو

دھول اُڑتی ہے مری جان مرے سینے میں
دل مرا دشت فشاں ہے تننا ھُو یاھُو

جونؔ، میں جو ہوں کہاں ہوں، مجھے بتلا تو سہی
جون تو مجھ میں تپاں ہے تننا ھُو یاھُو
۔۔۔۔
یہ جو سنا اک دن وہ حویلی یک سر بے آثار گری
 ہم جب بھی سائے میں بیٹھے، دل پر اک دیوار گری

جوں ہی مڑ کر دیکھا میں نے، بیچ اُٹھی تھی اک دیوار
بس یوں سمجھو میرے اوپر، بجلی سی اِک بار گری

دھار پہ باڑ رکھی جائے اور ہم اس کے گھائل ٹھہریں
میں نے دیکھا اور نظروں سے ان پلکوں کی دھار گری

گرنے والی اُن تعمیروں میں بھی ایک سلیقہ تھا
تم اینٹوں کی پوچھ رہے ہو، مٹی تک ہموار گری

بیداری کے بستر پر میں ان کے خواب سجاتا ہوں
نیند بھی جن کی ٹاٹ کے اوپر خوابوں سے نادار گری

خوب ہی تھی وہ قومِ شہیداں، یعنی سب بے زخم و خراش
میں بھی اس صف میں تھا شامل، وہ صف جو بے وار گری

ہر لمحہ گھمسان کا رن ہے، کون اپنے اوسان میں ہے
کون ہے یہ؟ اچھا تو میں، لاش تو ہاں اِک یار گری
۔۔۔۔
زَندانیانِ شام و سحر خیریت سے ہیں
ہر لمحہ جی رہے ہیں مگر خیریت سے ہیں

شہرِ یقین میں اب کوئی دم خم نہیں رہا
دشتِ گماں کے خاک بسر خیریت سے ہیں

ہے اپنے اپنے طور پہ ہر چیز اس گھڑی
مژگانِ خشک و دامنِ تر خیریت سے ہیں

اب فیصلوں کا کم نظروں پر مدار ہے
یعنی تمام اہلِ نظر خیریت سے ہیں

پیروں سے آبلوں کا وہی ہے معاملہ
سودیانِ حال کے سر خیریت سے ہیں

ہم جن گھروں کو چھوڑ کے آئے تھے ناگہاں
شکوے کی بات ہے وہ اگر خیریت سے ہیں

لُو چل رہی ہے محو ہے اپنے میں دوپہر
خاک اُڑ رہی ہے اور کھنڈر خیریت سے ہیں

ہم اہلِ شہر اپنے جوانوں کے درمیان
جونؔ ایک معجزہ ہے اگر خیریت سے ہیں

برباد ہو چکا ہے ہنر اِک ہنر کے ساتھ
اور اپنے صاحبانِ ہنر خیریت سے ہیں

شُکرِ خُدا شہید ہوئے اہلِ حق تمام
بَر گستوان و تیغ و تبر خیریت سے ہیں

اب اُس کا قصرِ ناز کہاں اور وہ کہاں
بس در ہے اور بندۂ در خیریت سے ہیں

ہم ہیں کہ شاعری ہے ہمارے لیے عذاب
ورنہ تمام جوشؔ و جگرؔ خیریت سے ہیں

شاعر تو دو ہیں میرؔ تقی اور میر جونؔ



باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں