میں ہنر مندِ رنگ ہوں میں نے
خون تھوکا ہے داد پائی ہے
۔۔۔
تھوک کر خون رنگ میں رہنا
میں ہنر مند ہوں اذیت کا
۔۔۔
ر گ ہی کیا ترے سنورنے کا
ہم لہو تھوک کر سنورتے ہیں
۔۔۔
ہم تو بس خون تھوکتے ہیں میاں
نہیں خوگر کسی مشقت کے
۔۔۔
بول کر داد کے دو بول
خون تھکوا لو شعبدہ گر سے
۔۔۔
خون تھوکنے کی زندگی کب تک
یاد آئے گی اب تری کب تک
۔۔۔
تھوک دے خون جان لے وہ اگر
عالمِ ترکِ مدعا میرا
۔۔۔
وہ داستاں تمہیں اب بھی یاد ہے کہ نہیں
جو خون تھوکنے والوں کی بے حسی ہی رہی
۔۔۔
کیا گلہ خون جو اب تھوک رہے ہیں جاناں
ہم ترے رنگ کے پرتَو سے سجائے بھی گئے
۔۔۔
کیوں نہ تھوکا جائے اب خونِ جگر
یعنی تم میرا زیاں تھیں فارحہ
۔۔۔
سوچا ہے کہ اب کارِ مسیحا نہ کریں گے
وہ خون بھی تھوکے گا تو پرواہ نہ کریں گے
۔۔۔
تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پرکار ہی رہو
۔۔۔
رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب
خون تھوکوں تو واہ واہ کیجے
۔۔۔
میرے حجرے کا کیا بیاں کے یہاں
خون تھوکا گیا شرارت میں
۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں