آپا
جب کبھی بیٹھے بٹھائے مجھے آپا یاد آتی ہے تو میری آنکھوں کے آگے ایک چھوٹا سا بلوری دیا آ جاتا ہے جو مدھم لو سے جل رہا ہو۔
مجھے یاد ہے ایک رات ہم سب چپ چاپ باورچی خانے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ، آپا اور امی جان کہ چھوٹا بدو بھاگتا ہوا آیا۔ ان دنوں بدو یہی چھ سات سال کا ہو گا۔ کہنے لگا۔ امی جان میں بھی باہ کروں گا۔
’’اوہ…. ابھی سے۔ ‘‘ اماں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر کہنے لگیں۔ ’’اچھا بدو تمہارا بیاہ آپا سے کر دیں ؟‘‘
’’اونہوں ….‘‘ بدو نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
اماں کہنے لگیں۔ ’’کیوں آپا کو کیا ہے؟‘‘
’’ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔ ‘‘
اماں نے آپا کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہنے لگی۔ ’’کیوں …. دیکھو تو آپا کیسی اچھی ہیں ….!‘‘
’’میں بتاؤں کیسی ہے؟‘‘ وہ چلایا۔
’’ہاں بتاؤ تو بھلا۔ ‘‘ اماں نے پوچھا۔ بدو نے آنکھیں اٹھا کر چاروں طرف دیکھا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر اس کی نگاہ چولہے پر آ رکی۔ چولہے میں اپلے کا ایک جلا ہوا ٹکڑا پڑا تھا۔ بدو نے اس کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔ ’’ایسی۔ ‘‘ پھر بجلی کے روشن بلب کی طرف انگلی اٹھا کر چیخنے لگا۔ ’’اور چھاجو باجی ایسی۔ ‘‘ اس بات پر ہم سب دیر تک ہنستے رہے۔ اتنے میں تصدق بھائی آ گئے۔ اماں کہنے لگی۔ ’’تصدق بدو سے پوچھنا کہ آپا کیسی ہیں۔ ‘‘ آپا نے تصدق بھائی کو آتے ہوئے دیکھا تو منہ موڑ کر یوں بیٹھ گئی جیسے ہنڈیاں پکانے میں منہمک ہو۔
’’ہاں تو کیسی ہے آپا بدو؟‘‘ وہ بولے۔ ’’بتاؤں ‘‘ بدو چلایا اور اس نے اپلے کا ٹکڑا اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ غالباً وہ اسے ہاتھ میں لے کر ہمیں دکھانا چاہتا تھا مگر آپا نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور انگلی ہلاتے ہوئے بولی۔ ’’اونہہ‘‘ بدو رونے لگا تو اماں کہنے لگی۔ ’’پگلے اسے ہاتھ میں نہیں اٹھاتے۔ اس میں چنگاری ہے۔ ‘‘
’’وہ تو جلا ہوا ہے اماں !‘‘ بدو نے بسورتے ہوئے کہا۔
اماں بولیں۔ ’’میرے لال یہی تمہیں معلوم نہیں۔ اس کے اندر آگ ہے۔ اوپر سے نہیں دکھائی دیتی۔ ‘‘
بدو نے بھولے پن سے پوچھا۔ ’’کیوں آپا! اس میں آگ ہے کیا؟‘‘
اس وقت آپا کے منہ پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ ’’میں کیا جانوں۔ ‘‘ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور پھنکنی اٹھا کر جلتی ہوئی آگ میں بے مصرف پھونکیں مارنے لگیں۔
اب میں سمجھتی ہوں کہ آپا دل کی گہرائیوں میں جیتی تھی اور وہ گہرائیاں اتنی عمیق تھیں کہ بات ابھرتی بھی تو نکل نہ سکتی۔ اس روز بدو نے کیسے پتے کی بات کہی تھی۔ مگر میں کہا کرتی تھی۔ ’’آپا تم تو بس بیٹھ رہتی ہو۔ ‘‘ اور وہ مسکرا کر کہتی۔ ’’پگلی‘‘ اور اپنے کام میں لگ جاتی۔ ویسے تو وہ سارا دن کام میں لگی رہتی تھی۔ ہر کوئی اسے کسی نہ کسی کام کے لئے کہہ دیتا اور ایک ہی وقت میں اسے کئی کام کرنے پڑ جاتے۔ ادھر بدو چیختا ’’آپا میرا دلیا۔ ‘‘ ادھر ابا گھورتے۔ ’’سجادہ ابھی تک چائے کیوں نہیں بنی؟‘‘ بیچ میں اماں بول اٹھتی۔ ’’بیٹا دھوبی کب سے باہر کھڑا ہے۔ ‘‘ اور آپا چپ چاپ سارے کاموں سے نپٹ لیتی۔ یہ تو میں خوب جانتی تھی مگر اس کے باوجود جانے کیوں اسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کام کر رہی ہے یا وہ اتنا کام کرتی ہے۔ مجھے تو بس یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ بیٹھی ہی رہتی ہے اور اسے ادھر سے ادھر گردن موڑنے میں بھی اتنی دیر لگتی ہے اور چلتی ہے تو چلتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ میں نے آپا کو کبھی قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں سنا۔ زیادہ سے زیادہ مسکرا دیا کرتی تھی اور بس۔ البتہ وہ اکثر مسکرایا کرتی۔ جب وہ مسکراتی تو اس کے ہونٹ کھل جاتے اور آنکھیں بھیگ جاتیں۔ ہاں تو میں سمجھتی تھی کہ آپا بیٹھی ہی رہتی ہے۔ ذرا نہیں ہنستی اور بن چلے لڑھک کر یہاں سے وہاں پہنچ جاتی ہے۔ جیسے کسی نے اسے دھکیل دیا ہو۔ اس کے برعکس ساحرہ کتنے مزے میں چلتی تھی جیسے دادرے کی تال پر ناچ رہی ہو اور اپنی خالہ زاد بہن ساجو باجی کو چلتے دیکھ کر میں کبھی نہ اکتائی۔ جی چاہتا تھا کہ باجی ہمیشہ میرے پاس رہے اور چلتی چلتی اسی طرح گردن موڑ کر پنچم آواز میں کہے۔ ’’ہیں جی…. کیوں جی؟‘‘ اور اس کی کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکرانے لگیں۔ باجی کی بات بات مجھے کتنی پیاری لگتی تھی۔
ساحرہ اور ثریا ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں۔ دن بھر ان کا مکان ان کے قہقہوں سے گونجتا رہتا جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ بس میرا جی چاہتا تھا کہ انہیں کے گھر میں جا رہوں۔ ہمارے گھر میں رکھا ہی کیا تھا۔ ایک بیٹھ رہنے والی آپا، ایک ’’یہ کرو، وہ کرو‘‘ والی اماں اور دن بھر حقے پر گڑگڑانے والے ابا۔
اس روز جب میں نے ابا کو امی سے کہتے سنا، سچ تو یہ ہے کہ مجھے بے حد غصہ آیا۔ ابا کہنے لگے۔ ’’سجادہ کی ماں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساحرہ کے گھر میں بہت سے برتن ہیں۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘ اماں پوچھنے لگی۔
کہنے لگے۔ ’’بس تمام برتن بجتے رہتے ہیں …. اور یا قہقہے لگتے ہیں جیسے میلہ لگا ہو۔ ‘‘
اماں تنک کر بولی۔ ’’مجھے کیا معلوم۔ آپ تو بس لوگوں کے گھر کی طرف کان لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ‘‘
ابا کہنے لگے۔ ’’افوہ….! میرا تو یہ مطلب ہے کہ جہاں لڑکی جوان ہوئی، برتن بجنے لگے۔ بازار کے موڑ تک لوگوں کو خبر ہو جاتی ہے کہ فلاں گھر میں لڑکی جوان ہو چکی ہے۔ مگر دیکھو نا ہماری سجادہ میں یہ بات نہیں۔ ‘‘ میں نے ان کی بات سنی اور میرا دل کھولنے لگا۔ بڑی آئی ہے سجادہ۔ جی ہاں۔ اپنی بیٹی جو ہوئی۔ اس وقت میرا جی چاہتا تھا کہ جا کے باورچی خانے میں بیٹھی ہوئی آپا کا منہ چڑاؤں۔ اسی بات پر میں نے دن بھر کھانا نہ کھایا اور دل ہی دل میں کھولتی رہی۔ ابا جانتے ہی کیا ہیں۔ بس حقہ لیا اور گڑگڑ کر لیا یا زیادہ سے زیادہ کتاب کھول کر بیٹھ گئے اور گٹ مٹ، گٹ مٹ کرنے لگے۔ جیسے کوئی بھٹیاری مکئی کے دانے بھون رہا ہو۔ سارے گھر میں لے دے کے صرف تصدق بھائی ہی تھے جو دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے اور جب ابا گھر پر نہ ہوتے تو وہ بھدی آواز میں گایا بھی کرتے تھے۔
چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں ، آنکھوں میں نمی سی ہے
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے
آپا انہیں گاتے سن کر کسی نہ کسی بات پر مسکرا دیتی اور کوئی بات نہ ہوتی تو وہ بدو کو ہلکا سا تھپڑ مار کر کہتی۔ ’’بدو رونا۔ ‘‘ اور پھر آپ ہی بیٹھی مسکراتی رہتی۔
تصدق بھائی میرے پھوپھا کے بیٹے تھے۔ انہیں ہمارے گھر آئے یہی کوئی دو ماہ ہوئے تھے۔ کالج میں پڑھتے تھے۔ پہلے تو وہ بورڈنگ میں رہا کرتے تھے۔ پھر ایک دن جب پھوپھی آئی ہوئی تھی تو باتوں میں ان کا ذکر چھڑ گیا۔ پھوپھی کہنے لگی، بورڈنگ میں کھانے کا انتظام ٹھیک نہیں۔ لڑکا آئے دن بیمار رہتا ہے۔ اماں اس بات پر خوب لڑیں۔ کہنے لگیں۔ ’’اپنا گھر موجود ہے تو بورڈنگ میں پڑے رہنے کا مطلب۔ ‘‘ پھر ان دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ اماں کی تو عادت ہے کہ اگلی پچھلی بہت سی باتیں لے بیٹھتی ہے۔ غرضیکہ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہفتہ کے بعد تصدق بھائی بورڈنگ کو چھوڑ کر ہمارے ہاں آ ٹھہرے۔
تصدق بھائی مجھ سے اور بدو سے بڑی گپیں ہانکا کرتے تھے۔ ان کی باتیں بے حد دلچسپ ہوتیں۔ بدو سے تو وہ دن بھر نہ اکتاتے۔ البتہ آپا سے زیادہ باتیں نہ کرتے۔ کرتے بھی کیسے۔ جب کبھی وہ آپا کے سامنے جاتے تو آپا کے دوپٹے کا پلو آپ ہی آپ سرک کر نیم گھونگھٹ بن جاتا اور آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھک جاتیں اور وہ کسی نہ کسی کام میں شدت سے مصروف دکھائی دیتیں۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ آپا ان کی باتیں بڑے غور سے سنا کرتی تھی گو کہتی کچھ نہ تھی۔ بھائی صاحب بھی بدو سے آپا کے متعلق پوچھتے رہتے لیکن صرف اس وقت جب وہ دونوں اکیلے ہوتے۔ پوچھتے۔ ’’بدو تمہاری آپا کیا کر رہی ہے؟‘‘
’’آپا….‘‘ بدو لاپرواہی سے دہراتا۔ ’’بیٹھی ہے…. بلاؤں ؟‘‘
بھائی صاحب گھبرا کر کہتے۔ ’’نہیں نہیں۔ اچھا بدو…. آج تمہیں یہ دیکھو۔ اس طرح تمہیں دکھائیں۔ ‘‘ اور جب بدو کا دھیان ادھر ادھر ہو جاتا تو مدھم سی آواز میں کہتے۔ ’’ارے یار تم تو مفت کا ڈھنڈورا ہو۔ ‘‘بدو چیخ اٹھتا۔ ’’کیا ہوں میں ؟‘‘ اس پر وہ میز بجانے لگتے۔ ڈگمگ ڈگمگ…. ڈھنڈورا یعنی یہ ڈھنڈورا ہے۔ دیکھا جسے ڈھول بھی کہتے ہیں۔ ڈگمگ ڈگمگ سمجھے اور آپا اکثر چلتے چلتے ان کے دروازے پر رک جاتی اور ان کی باتیں سنتی رہتی اور پھر چولہے کے پاس بیٹھ کر آپ ہی آپ مسکراتی۔ اس وقت اس کے سر سے دوپٹہ سرک جاتا۔ بالوں کی لٹ پھسل کر گالوں پر آ گرتی اور وہ بھیگی بھیگی آنکھیں چولہے میں ناچتے ہوئے شعلوں کی طرح جھومتیں۔ آپا کے ہونٹ یوں ہلتے، گویا گا رہی ہو۔ مگر الفاظ سنائی نہ دیتے۔ ایسے میں اگر اماں یا ابا باورچی خانے میں آ جاتے تو آپا ٹھٹک کر یوں اپنا دوپٹہ، بال اور آنکھیں سنبھالتی گویا کسی بے تکلف محفل میں کوئی بیگانہ آ گیا ہو۔
ایک دن میں ، آپا اور اماں صحن میں تھیں۔ اس وقت بھائی اندر اپنے کمرے میں بدو سے باتیں کر رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ بھائی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہم باہر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی باتیں سن رہے ہیں۔ بھائی صاحب بدو سے کہہ رہے تھے۔ ’’میرے یار ہم تو اس سے بیاہ کریں گے جو ہم سے انگریزی میں باتیں کر سکے۔ کتابیں پڑھ سکے۔ شطرنج، کیرم اور چڑیا کھیل سکے۔ چڑیا جانتے ہو؟ وہ گول گول پروں والا گیند بلے سے یوں ڈزٹن ڈز۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں مزیدار کھانے پکا کر کھلا سکے۔ سمجھے….؟‘‘
بدو بولا۔ ’’ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔ ‘‘
’’اونہہ….‘‘ بھائی نے کہا۔
بدو چیخنے لگا۔ ’’میں جانتا ہوں۔ تم آپا سے بیاہ کرو گے…. ہاں۔ ‘‘
اس وقت اماں نے آپا کی طرف دیکھا مگر آپا اپنے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن توڑنے میں اس قدر مصروف تھی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔ اندر بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔ ’’واہ تمہاری آپا فرنی پکاتی ہے تو پوری طرح شکر بھی نہیں ڈالتی۔ بالکل پھیکی….آخ تھو۔ ‘‘
بدو نے کہا۔ ’’ابا جو کہتے ہیں کہ فرنی میں کم میٹھا ہونا چاہئے۔ ‘‘
’’تو وہ اپنے ابا کے لئے پکاتی ہے، ہمارے لئے تو نہیں۔ ‘‘
’’میں کہوں آپا سے؟‘‘ بدو چیخا۔
بھائی چلائے۔ ’’اوہ پگلا۔ ڈھنڈورا۔ لو تمہیں ڈھنڈورا پیٹ کر دکھائیں۔ یہ دیکھو اس طرح…. ڈگمگ ڈگمگ۔ ‘‘ بدو پھر چلانے لگتا۔ ’’میں جانتا ہوں۔ تم میز بجا رہے ہونا؟ ہاں ہاں اسی طرح ڈھنڈورا پٹتا ہے نا۔ ‘‘ بھائی کہہ رہے تھے۔ ’’کشتیوں میں۔ اچھا بدو تم نے کبھی کشتی لڑی ہے۔ آؤ ہم تم کشتی لڑیں۔ میں ہوا گاما اور تم بدو پہلوان۔ ذرا ٹھہرو جب میں تین کہوں تب۔ ‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مدھم آواز سے کہا۔ ’’ارے یار! تمہاری دوستی تو مجھے بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ‘‘
میرا خیال ہے آپا ہنسی نہ روک سکی۔ اس لئے وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ میرا تو ہنسی کے مارے دم نکلا جا رہا تھا اور اماں نے اپنے منہ میں دوپٹہ ٹھونس لیا تھا۔
میں اور آپا دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بھائی صاحب آ گئے اور کہنے لگے۔ ’’کیا پڑھ رہی ہو جہینا؟‘‘ ان کے منہ سے جہینا سن کر مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی۔ حالانکہ مجھے اپنے نام سے بے حد نفرت تھی۔ نورجہاں کیسا پرانا نام ہے۔ بولتے ہی منہ میں باسی روٹی کا مزہ آنے لگتا ہے۔ میں تو نور جہاں سن کر یوں محسوس کیا کرتی تھی جیسے صاحب کو نام بگاڑ کر اسے سنوارنے میں کمال حاصل تھا۔ ان کے منہ سے جیہنا سن کر مجھے اپنے نام سے کوئی شکایت نہ رہتی اور میں محسوس کرتی گویا ایران کی شہزادی ہوں۔ آپا کو وہ سجادہ سے سجدے کہا کرتے تھے۔ مگر وہ تو پرانی بات تھی۔ جب آپا چھوٹی تھی۔ اب تو بھائی اسے سجدے نہ کہتے بلکہ اس کا پورا نام لیتے گھبراتے تھے۔ خیر میں نے جواب دیا۔ ’’سکول کا کام کر رہی ہوں۔ ‘‘ پوچھنے لگے کہ تم نے کوئی برنارڈ شا کی کتاب پڑھی ہے کیا؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’نہیں ‘‘
انہوں نے میرے اور آپا کے درمیان والی دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری آپا نے تو ہارٹ بریک ہاؤس پڑھی ہو گی۔ ‘‘ وہ کنکھیوں سے آپا کی طرف دیکھ رہے تھے۔
آپا نے نظریں اٹھائے بغیر ہی سر ہلا دیا اور مدھم سی آواز میں کہا۔ ’’نہیں۔ ‘‘ اور سویٹر بننے میں لگی رہی۔
بھائی بولے۔ ’’کیا بتاؤں جہینا کہ وہ کیا چیز ہے۔ نشہ ہے نشہ۔ خالص شہد۔ تم اسے ضرور پڑھو۔ بالکل آسان ہے یعنی امتحان کے بعد ضرور پڑھنا۔ میرے پاس پڑی ہے۔ ‘‘
’’میں نے کہا۔ ’’ضرور پڑھوں گی۔ ‘‘
پھر پوچھنے لگے۔ ’’میں کہتا ہوں تمہاری آپا نے میٹرک کے بعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘
میں نے چڑ کر کہا۔ ’’مجھے کیا معلوم۔ آپ خود ہی پوچھ لیجئے۔ ‘‘ حالانکہ مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ آپا نے کالج جانے سے کیوں انکار کیا تھا۔ ‘‘ میرا تو کالج جانے کو جی نہیں چاہتا۔ وہاں لڑکیوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کوئی نمائش گاہ ہو۔ درسگاہ تو معلوم ہی نہیں ہوتی۔ جیسے مطالعے کے بہانے میلہ لگا ہو۔ ‘‘ مجھے آپا کی یہ بات بہت بری لگی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ گھر بیٹھ رہنے والی ہے۔ کالج جانا نہیں چاہتی۔ بڑی آئی تھی نکتہ چیں۔
اس کے علاوہ جب کبھی بھائی جان آپا کی بات کرتے تو خواہ مخواہ چڑ جاتی۔ آپا تو بات کا جواب تک نہیں دیتی اور آپا آپا کر رہے ہیں اور پھر آپا کی بات مجھ سے پوچھنے کا مطلب؟ میں کیا ٹیلی فون تھی؟ خود آپا سے پوچھ لیتے اور آپا بیٹھی ہوئی گم صم بھیگی بلی۔
شام کو ابا کھانے پر بیٹھے ہوئے چلا اٹھے۔ ’’آج فرنی میں اتنی شکر کیوں ہے؟ قند سے ہونٹ چپکے جا رہے ہیں۔ سجادہ…. سجادہ بیٹی۔ کیا چینی اتنی سستی ہو گئی ہے۔ ایک لقمہ نگلنا مشکل ہو رہا ہے۔ ‘‘
آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھوم رہی تھیں۔ حالانکہ جب کبھی ابا جان خفا ہوتے تو آپا کا رنگ زرد پڑ جاتا تھا مگر اس وقت اس کے گال تمتما رہے تھے۔ کہنے لگی۔ ’’شاید زیادہ پڑ گئی ہو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ تو باورچی خانے میں چلی گئی اور میں دانت پیس رہی تھی۔ شاید کیا خوب شاید۔
ادھر ابا بدستور بڑبڑا رہے تھے۔ ’’چار پانچ دن سے دیکھ رہا ہوں ، فرنی میں قند بڑھتی جا رہی ہے۔ ‘‘ صحن سے اماں دوڑی دوڑی آئیں اور آتے ہی ابا پر برس پڑیں جیسے ان کی عادت ہے۔ ‘‘ آپ تو ناحق بگڑتے ہیں۔ آپ ہلکا میٹھا پسند کرتے ہیں تو کیا باقی لوگ بھی کم کھائیں۔ اللہ رکھے گھر میں جوان لڑکا ہے۔ اس کا تو خیال کرنا چاہئے۔ ‘‘ ابا کو جان چھڑانی مشکل ہو گئی کہنے لگے۔ ’’اوہ یہ بات ہے۔ مجھے بتا دیا ہوتا۔ میں کہتا ہوں سجادہ کی ماں ….‘‘ اور وہ دونوں آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔
آپا ساحرہ کے گھر جانے کو تیار ہوئی تو میں بڑی حیران ہوئی۔ آپا ان سے ملنا تو کیا بات تک کو ناپسند کرتی تھی۔ بلکہ اس کے نام پر ہی ناک بھوں چڑھایا کرتی تھی۔ میں نے خیال کیا کہ ضرور کوئی بھید ہے اس بات میں۔ کبھی کبھار ساحرہ دیوار کے ساتھ چارپائی کھڑی کر کے اس پر چڑھ کر ہماری طرف جھانکتی اور کسی نہ کسی بہانے سلسلہ گفتگو قائم کرنے کی کوشش کرتی تو آپا بڑی بے دلی سے دو ایک باتیں کر کے اسے ٹال دیتی۔ آپ ہی بول اٹھتی۔ ’’ابھی تو اتنا کام پڑا ہے اور میں یہاں کھڑی ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر باورچی خانے میں جا بیٹھتی۔ خیر اس وقت تو میں چپ چاپ بیٹھی رہی مگر جب آپا لوٹ آئی تو کچھ عرصے کے بعد چپکے سے میں بھی ساحرہ کے گھر جا پہنچی۔ باتوں ہی باتوں میں ، میں نے ذکر چھیڑ دیا۔ ’’آج آپا آئی تھی؟‘‘
ساحرہ نے ناخن پالش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں کوئی کتاب منگوانے کو کہہ گئی ہے۔ نہ جانے کیا نام ہے اس کا…. ہارٹ بریک ہاؤس۔ ‘‘
آپا اس کتاب کو مجھ سے چھپا کر دراز میں مقفل رکھتی تھی۔ مجھے کیا معلوم نہ تھا کہ رات کو وہ بار بار کبھی میری طرف اور کبھی گھڑی کی طرف دیکھتی رہتی۔ اسے یوں مضطرب دیکھ کر میں دو ایک چھوٹی انگڑائی لیتی اور پھر کتاب بند کر کے رضائی میں یوں لیٹ جاتی جیسے مدت سے گہری نیند میں ڈوب چکی ہوں۔ جب اسے یقین ہو جاتا کہ میں سو چکی ہوں تو دراز کھول کر کتاب نکال لیتی اور اسے پڑھنا شروع کر دیتی۔ آخر ایک دن مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے رضائی سے منہ نکال کر پوچھ ہی لیا۔ ’’آپا یہ ’’ہارٹ بریک ہاؤس‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ ’’دل توڑنے والا گھر‘‘ اس کے کیا معنی ہوئے؟‘‘ پہلے تو آپا ٹھٹک گئی۔ پھر سنبھل کر بیٹھ گئی مگر اس نے میری بات کا جواب نہ دیا۔ میں نے اس کی خاموشی سے جل کر کہا۔ ’’اس لحاظ سے تو ہمارا گھر بھی ہارٹ بریک ہے۔ ‘‘ کہنے لگی۔ ’’میں کیا جانوں۔ ‘‘
میں نے اسے جلانے کو کہا۔ ’’ہاں ہماری آپا بھلا کیا جانے۔ ‘‘ میرا خیال ہے یہ بات اسے ضرور بری لگی۔ کیونکہ اس نے کتاب رکھ دی اور بتی بجھا کر سو گئی۔
ایک دن یوں ہی پھرتے پھراتے میں بھائی جان کے کمرے میں جا نکلی۔ پہلے تو بھائی جان ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے پھر پوچھنے لگے۔ ’’جیہنا اچھا یہ بتاؤ کیا تمہاری آپا کو فروٹ سلاد بنانا آتا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں کیا جانوں جا کر آپا سے پوچھ لیجئے۔ ‘‘ ہنس کر کہنے لگے۔ ’’آج کیا کسی سے لڑ کر آئی ہو؟‘‘ میں نے ان کی بات کا جواب نہ دیا۔ پھر بولے۔ ’’َہیں۔ ابھی تو لڑکی ہو۔ شاید کسی دن لڑاکا بن جاؤ۔ ‘‘ اس پر میری ہنسی نکل گئی۔ وہ کہنے لگے۔ ’’دیکھو جیہنا مجھے لڑنا بے حد پسند ہے۔ میں تو ایسی لڑکی سے بیاہ کروں گا جو باقاعدہ صبح سے شام تک مجھ سے لڑ سکے اور نہ اکتائے۔ ‘‘ میں شرما گئی اور بات بدلنے کی خاطر پوچھا۔ ’’فروٹ سلاد کیا ہوتا ہے بھائی جان؟‘‘
بولے۔ ’’وہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ سفید سفید، لال لال، کالا کالا، نیلا نیلا سا۔ ‘‘ میں ان کی بات سن کر بہت ہنسی۔ پھر کہنے لگے۔ ‘‘ وہ مجھے بے حد پسند ہے۔ یہاں تو ہے نا ہم فرنی کھا کھا کر اکتا گئے۔ ‘‘
میرا خیال ہے یہ بات آپا نے ضرور سن لی ہو گی کیونکہ اسی شام کو وہ باورچی خانے میں بیٹھی ’’نعمت خانہ‘‘ پڑھ رہی تھی۔ اس دن کے بعد روز بلا ناغہ وہ کھانے پکانے سے فارغ ہو کر فروٹ سلاد بنانے کی مشق کیا کرتی اور ہم میں سے کوئی اس کے پاس جاتا تو وہ جھٹ فروٹ سلاد کی کشتی چھپا دیتی۔
ایک روز آپا کو چھیڑنے کی خاطر میں نے بدو سے پوچھا۔ ’’بدو بھلا بوجھو تو وہ کشتی جو آپا کے پیچھے پڑی ہے، اس میں کیا ہے؟‘‘
بدو ہاتھ دھو کر آپا کے پیچھے پڑ گیا۔ حتیٰ کہ آپا کو وہ کشتی بدو کو دینی ہی پڑی۔ پھر میں نے بدو کو اور بھی چمکا دیا۔ میں نے کہا۔ بدو جاؤ بھائی جان سے پوچھو۔ اس کھانے کا کیا نام ہے۔ ‘‘
بدو بھائی جان کے کمرے کی طرف جانے لگا تو آپا نے اٹھ کر کشتی اس سے چھین لی اور میری طرف گھور کر دیکھا۔ اس روز پہلی مرتبہ آپا نے مجھے غصے سے گھورا تھا۔
اس رات آپا شام ہی سے لیٹ گئی۔ مجھے صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ رضائی میں پڑی رو رہی ہے۔ اس وقت مجھے اپنی بات پر بہت افسوس ہوا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں اٹھ کر آپا کے پاؤں پڑ جاؤں اور اسے خوب پیار کروں مگر ویسے ہی چپ چاپ بیٹھی رہی اور کتاب کا ایک لفظ تک نہ پڑھ سکی۔
انہیں دنوں میری خالہ زاد بہن ساجدہ جسے ہم سب ساجو باجی کہا کرتے تھے۔ میٹرک کا امتحان دینے کے لئے ہمارے گھر آ ٹھہریں۔ ساجو باجی کے آنے پر ہمارے گھر میں رونق ہو گئی۔ ہمارا گھر بھی قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ساحرہ اور ثریا چارپائیوں پر کھڑی ہو کر باجی سے باتیں کرتی رہتیں۔ بدو چھاجو باجی۔ چھاجو باجی چیختا پھرتا اور کہتا۔ ’’ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔‘‘
باجی کہتی۔ ’’شکل تو دیکھو اپنی۔ پہلے منہ دھو آؤ۔ ‘‘ پھر وہ بھائی صاحب کی طرف یوں گردن موڑتی کہ کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکراتے اور وہ پنجم تان میں پوچھتی۔ ’’ہے نا بھائی جان….!‘‘
باجی کے منہ سے ’’بھئی جان۔ ‘‘ ایسا بھلا سنائی دیتا تھا کہ میں خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ اس کے برعکس جب کبھی آپا بھائی صاحب کہتی تو کیسا بھدا معلوم ہوتا تھا۔ گویا وہ واقعی انہیں بھائی کہہ رہی ہو اور پھر صاحب جیسے حلق میں کچھ پھنسا ہوا ہو مگر باجی صاحب کی جگہ جاآن کہہ کر وہ اس سادے لفظ میں جان ڈال دیتی تھی۔ جاآن کی گونج میں بھائی دب جاتا اور یہ محسوس ہی نہ ہوتا کہ وہ انہیں بھائی کہہ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھئی جاآن کہہ کر وہ ایسی کالی کالی آنکھوں میں مسکراتی کہ سننے والے کو قطعی یہ گمان نہ ہوتا کہ اسے بھائی کہا گیا ہے۔ آپا کے بھائی اور باجی کے بھائی جان میں کتنا فرق تھا۔
باجی کے آنے پر آپا کا بیٹھ رہنا بالکل بیٹھ رہنا ہو گیا۔ بدو نے بھائی جان سے کھیلنا چھوڑ دیا۔ وہ باجی کے گرد طواف کرتا رہتا اور باجی بھائی جان سے کبھی شطرنج اور کبھی کیرم کھیلتی۔
باجی کہتی۔ ’’بھائی جان ایک بورڈ لگے گا۔ ‘‘ یا بھائی جان باجی کی موجودگی میں بدو سے کہتے۔ ’’کیوں میاں بدو کوئی ہے جو ہم سے شطرنج میں پٹنا چاہتا ہو؟‘‘ باجی بول اٹھتی۔ ’’آپا سے پوچھئے۔ ‘‘ بھائی کہتے۔ ’’اور تم….‘‘ باجی جھوٹ موٹ کی سوچ میں پڑ جاتی۔ چہرے پر سنجیدگی پیدا کر لیتی۔ بھوئیں سمٹا لیتی اور تیوری چڑھا کر کھڑی ہو جاتی پھر کہتی۔ ’’اونہہ مجھ سے تو آپ پٹ جائیں گے۔ ‘‘ بھائی جان کھلکھلا کر ہنس پڑتے اور کہتے۔ ’’کل جو پٹی تھیں ، بھول گئیں کیا؟‘‘ وہ جواب دیتی۔ ’’میں نے کہا چلو بھئی جاآن کا لفظ کر دو۔ ورنہ دنیا کیا کہے گی کہ وہ مجھ سے ہار گئے۔ ‘‘ اور پھر یوں ہنستی جیسے گھنگھرو بج رہے ہوں۔
رات کو بھائی جان باورچی خانے ہی میں بیٹھ گئے۔ آپا چپ چاپ چولہے کے سامنے بیٹھی تھی۔ بدو چھاجو باجی، چھاجو باجی کہتا ہوا باجی کا پلو پکڑے اس کے ارد گرد گھوم رہا تھا۔ باجی بھائی جان کو چھیڑ رہی تھی۔ کہتی تھی۔ ’’بھئی جاآن تو صرف ساڑھے چھ پھلکے کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرنی کی پلیٹ مل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کریں بھی کیا۔ نہ کھائی تو ممانی ناراض ہو جائیں۔ انہیں جو خوش رکھنا ہوا۔ ہے نا بھئی جاآن۔ ‘‘ ہم سب اس بات پر خوب ہنسے۔ پھر باجی ادھر ادھر ٹہلنے لگی اور آپا کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔ آپا کے پیچھے فروٹ سلاد کی کشتی پڑی تھی۔ باجی نے ڈھکنا سرکا کر دیکھا اور کشتی کو اٹھا لیا۔ پیشتر اس کے آپا کچھ کہہ سکے، باجی وہ کشتی بھائی جان کی طرف لے آئی۔ ’’لیجئے بھائی جاآن!‘‘ اس نے آنکھوں میں ہنستے ہوئے کہا۔ آپ بھی کیا کہیں گے کہ ساجو باجی نے کبھی کچھ کھلایا ہی نہیں۔ ‘‘
بھائی جان نے دو تین چمچے منہ میں ٹھونس کر کہا۔ ’’خدا کی قسم بہت اچھا بنا ہے۔ کس نے بنایا ہے؟‘‘ باجی نے آپا کی طرف کنکھیوں سے دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ساجو باجی نے اور کس نے بھئی جاآن کے لئے۔ ‘‘بدو نے آپا کے منہ کی طرف غور سے دیکھا۔ آپا کا منہ لال ہو رہا تھا۔ بدو چلا اٹھا۔ ’’میں بتاؤں بھائی جان….‘‘ آپا نے بڑھ کر بدو کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے گود میں اٹھا کر باہر چلی گئی۔ باہر آپا الگنی کے قریب کھڑی تھی۔ بھائی جان نے مدھم آواز میں کچھ کہا۔ آپا نے کان سے دوپٹہ سرکا دیا۔ پھر باجی کی آواز آئی۔ ’’چھوڑئیے چھوڑئیے۔ ‘‘ اور پھر خاموشی چھا گئی۔
اگلے دن ہم صحن میں بیٹھے تھے۔ اس وقت بھائی جان اپنے کمرے میں پڑھ رہے تھے۔ بدو بھی کہیں ادھر ادھر ہی کھیل رہا تھا۔ باجی حسب معمول بھائی جان کے کمرے میں چلی گئی۔ ’’آج ایک دھندناتا بورڈ کر دکھاؤں۔ کیا رائے ہے آپ کی؟‘‘بھائی جان بولے۔ ’’واہ یہاں کک لگاؤں تو جانے کہاں جا پڑو۔ ‘‘ غالباً انہوں نے باجی کی طرف زر سے پیر چلایا ہو گا۔ وہ بناوٹی غصے میں چلائی۔ ’’وہ آپ تو ہمیشہ پیر ہی سے چھیڑتے ہیں۔ ‘‘ بھائی جان معاً بول اٹھے۔ ’’تو کیا ہاتھ سے….‘‘ ’’چپ خاموش۔ ‘‘ باجی چیخی۔ اس کے بھاگنے کے آواز آئی۔ ایک منٹ تک تو پکڑو دھکڑ سنائی دی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔
اتنے میں کہیں سے بدو بھاگتا ہوا آیا۔ کہنے لگا۔ ’’آپا اندر بھائی جان باجی سے کشتی لڑ رہے ہیں۔ چلو دکھاؤں تمہیں۔ چلو بھی۔ ‘‘ وہ آپا کا بازو پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ آپا کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ وہ بت بنی کھڑی تھی۔ بدو نے آپا کو چھوڑ دیا وہ کہنے لگا۔ ’’اماں کہاں ہے؟‘‘ اور اماں کو بلانے کے لئے دوڑا۔ آپا نے لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا اور باورچی خانے میں لے گئی۔
اسی شام میں نے کتابوں کی الماری کھولی تو اس میں آپا کی ’’ہارٹ بریک ہاؤس‘‘ پڑی تھی۔ شاید آپا نے اسے وہاں رکھ دیا ہو۔ میں حیران ہوئی کہ بات کیا ہے۔ مگر آپا باورچی خانے میں چپ چاپ بیٹھی تھی۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس کے پیچھے فروٹ سلاد والی کشتی خالی پڑی تھی۔ البتہ آپا کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔
بھائی تصدق اور باجی کی شادی کے دو سال بعد ہمیں پہلی بار ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ اب باجی وہ باجی نہ تھی۔ اس کے قہقہے بھی نہ تھے۔ اس کا رنگ زرد تھا اور ماتھے پر شکن چڑھی تھی۔ بھائی جان بھی چپ چپ رہتے تھے۔ ایک شام اماں کے سوا ہم سب باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ بھائی کہنے لگے۔ ’’بدو ساجو باجی سے بیاہ کرو گے؟‘‘
’’اونہہ۔ ‘‘ بدو نے کہا۔ ’’ہم بیاہ کریں گے ہی نہیں۔ ‘‘
میں نے پوچھا۔ ’’بھائی جان یاد ہے جب بدو کہا کرتا تھا۔ ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔ ‘‘ اماں نے پوچھا۔ ’’آپا سے کیوں نہیں ؟‘‘ تو کہنے لگا۔ ’’بتاؤں آپا کیسی ہے…. پھر چولہے میں جلے ہوئے اپلے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا…. ایسی۔ اور چھاجو باجی روشن بلب کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے…. ایسی۔ ‘‘ عین اسی وقت بجلی بجھ گئی اور کمرے میں انگاروں کی روشنی کے سوا اندھیرا چھا گیا۔ ’’جہاں یاد ہے۔ ‘‘ بھائی نے کہاں۔ پھر جب باجی کسی کام کے لئے باہر چلی گئی تو بھائی کہنے لگے۔ ‘‘ نہ جانے اب بجلی کو کیا ہو گیا ہے۔ جلتی بجتی رہتی ہے۔ ‘‘ آپا چپ چاپ بیٹھی چولہے میں راکھ سے دبی ہوئی چنگاریوں کو کرید رہی تھی۔ بھائی جان نے مغموم آواز میں کہا۔ ’’اف کتنی سردی ہے۔ ‘‘ پھر اٹھ کر آپا کے قریب چولہے کے سامنے جا بیٹھے اور سلگتے ہوئے اپلوں سے ہاتھ سینکنے لگے۔ بولے۔ ’’ممانی سچ کہتی تھیں کہ ان جلے ہوئے اپلوں میں آگ دبی ہوتی ہے۔ اوپر سے نہیں دکھتی۔ کیوں سجدے۔ ‘‘ آپا پرے سرکنے لگی تو چھن سی آواز آئی جیسے کسی دبی ہوئی چنگاری پر پانی کی بوند پڑی ہو۔ بھائی جان منت بھری آواز میں کہنے لگا۔ ’’اب اس چنگاری کو تو نہ بجھاؤ۔ سجدے دیکھو تو کتنی ٹھنڈ ہے۔ ‘‘
ممتاز مفتی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں