اتوار، 24 مارچ، 2019

لوگ ہلالِ شام سے بڑھ کر، پَل میں ماہِ تمام ہوئے

لوگ ہلالِ شام سے بڑھ کر، پَل میں ماہِ تمام ہوئے
ہم ہر بُرج میں گَھٹتے گَھٹتے صُبح تلک گُمنام ہوئے

اُن لوگوں کی بات کرو جو عشق میں خُوش انجام ہوئے
نَجد میں قیس، یہاں پر اِنشؔا، خوار ہوئے، ناکام ہوئے

کِس کا چمکتا چہرہ لائیں کِس سُورج سے مانگیں دُھوپ
گَھور اندھیرا چھا جاتا ہے، خلوتِ دل میں شام ہوئے

ایک سے ایک جنُوں کا مارا، اِس بستی میں رہتا ہے
ایک ہمِیں ہشیار تھے یارو! ایک ہمِیں بدنام ہوئے

شوق کی آگ نفس کی گرمی گَھٹتے گَھٹتے سرد نہ ہو
چاہ کی راہ دِکھا کر تم تو وقفِ دریچہ و بام ہوئے

اُن سے بہار و باغ کی باتیں کر کے جی کو دُکھانا کیا
جن کو ایک زمانہ گُزرا کُنجِ قفس میں رام ہوئے

اِنشاؔ صاحب پَو پھٹتے ہی تارے ڈُوبے، صُبح ہوئی
بات تُمہاری مان کے ہم تو شب بھر بے آرام ہوئے

اِبنِ اِنشا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں