جمعرات، 20 فروری، 2020

بیچ رستے یوں مجھے پھینک کے جانے والے --- افتخار الفیؔ

بیچ رستے یوں مجھے پھینک کے جانے والے
کیا ہوئے وعدے ترے بوجھ اٹھانے والے

میری آنکھوں میں نئے خواب سجانے والے
اور تعبیر کو پھر آگ لگانے والے

ہجر کی اوٹ سے الفت کو چھپانے والے
تو کہاں ہے ! اے مرے یار پرانے والے

ہاں ! یہ مانا کہ میں اک بارِ گراں تھا لیکن
بوجھ سارے تو نہیں ہوتے گرانے والے

رند بے شک ہوں مگر یہ ہے حقیقت ساقی
مجھ کو پوچھیں گے بہت لوٹ کے آنے والے

عین ممکن ہے کوئی رند یوں پوچھے آ کے
کیا ہوئے لوگ وہ آنکھوں سے پلانے والے

ہم نے چاہا تو بہت خود کو بدل لیں اب کے
طور ! آئے نہ مگر ہم کو زمانے والے

تیرے جیون پہ سدا خوشیوں کی برکھا برسے
تو سدا شاد رہے ! خون رلانے والے

زندگی اپنی ہے اک تلخ حقیقت الفیؔ
موڑ سارے ہیں مگر اس میں فسانے والے


افتخار الفیؔ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں