یادِماضی تری سوچوں سے مٹا سکتا ہوں
آگ نفرت کی ترے دل سے بجھا سکتا ہوں
پھول چاہت کے ترے من میں کھلا سکتا ہوں
تیرے چہرے سے اداسی کو ہٹا سکتا ہوں
ہر جفا کو ! اے جفاگر ۔۔۔میں بھلا سکتا ہوں
تو بلائے تو ابھی لوٹ کے آ سکتا ہوں
وقت بدلا ہے تو کیا ؟ میں تو نہیں ہوں بدلا
میں ستاروں سے تری مانگ سجا سکتا ہوں
اور سورج کو بنا سکتا ہوں جھومر تیرا
چاند کو کاٹ کے بالی میں لگا سکتا ہوں
میں مصور تو نہیں ۔۔۔۔۔جانِ تمنا لیکن
تیری تصویر کو شعروں میں دِکھا سکتا ہوں
دور ہو کر بھی کہاں دور ہے الفی تم سے
میں بھلا یار تمھیں چھوڑ کے جا سکتا ہوں ؟؟؟
افتخار الفیؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں