کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے
کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے
میرے قدموں پہ مرا سر ہے کئی صدیوں سے خوف رہتا ہے نہ سیلاب کہیں لے جائے میری پلکوں پہ ترا گھر ہے کئی صدیوں سے اشک آنکھوں میں سلگتے ہوئے سو جاتے ہیں یہ میری آنکھ جو بنجر ہے کئی صدیوں سے کون کہتا ہے ملاقات مری آج کی ہے تو مری روح کے اندر ہے کئی صدیوں سے میں نے جس کے لیے ہر شخص کو ناراض کیا روٹھ جائے نہ یہی ڈر ہے کئی صدیوں سے اس کو عادت ہے جڑیں کاٹتے رہنے کی وصیؔ جو مری ذات کا محور ہے کئی صدیوں سے وصی شاہ |
پیر، 22 اکتوبر، 2018
کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں