جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا

اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا

اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا
ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافر تو مجھے کیا

ویرانۂ جاں کی جو فضا تھی سو رہے گی
چہکے کسی گلشن میں وہ طائر تو مجھے کیا


وہ شمع مرے گھر میں تو بے نور ہی ٹھہری
بازار میں وہ جنس ہو نادر تو مجھے کیا

وہ رنگ فشاں آنکھ وہ تصویر نما ہاتھ
دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا

میں نے اسے چاہا تھا تو چاہا نہ گیا میں
چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا

دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری
اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا

اک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی میں اپنی
اب کوئی پکارے مرے شاعر تو مجھے کیا

عبید اللہ علیم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں