جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا

ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا

ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا
یہ سمن زار نظر آئے گا صحرا ایسا
میں نے کیا رنج دیے اشک نہ لوٹائے مجھے
اے مرے دل کوئی بے فیض نہ دیکھا ایسا
ایک مدت سے کوئی لہر نہ اٹھی مجھ میں
میری آنکھوں سے چھپا چاند کا چہرہ ایسا
رات کہتی ہے ملاقات نہ ہوگی اپنی
تو کوئی خواب نہ میں نیند کا ماتا ایسا
جسم کی سطح پہ کاغذ کی طرح زندہ ہیں
تو سمندر ہے نہ میں ڈوبنے والا ایسا
تیرے چہرے پہ اجالے کی سخاوت ایسی
اور مری روح میں نادار اندھیرا ایسا
ہر نئے درد کی پوشاک پہن لی میں نے
جاں مہذب نہ ہوئی میں تھا برہنہ ایسا


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں