پیر، 22 اکتوبر، 2018

مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا

مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا


مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا

جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا


وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے

اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا


وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے

اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا


چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا

سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا


یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں

وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا


ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ

وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا

احمد فراز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں