جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

اپنے انداز کا اکیلا تھا

اپنے انداز کا اکیلا تھا


اپنے انداز کا اکیلا تھا
اس لئے میں بڑا اکیلا تھا
                       
پیار تو جنم کا اکیلا تھا
کیا مرا تجربہ اکیلا تھا

ساتھ تیرا نہ کچھ بدل پایا
میرا ہی راستہ اکیلا تھا

بخشش بے حساب کے آگے
میرا دست دعا اکیلا تھا

تیری سمجھوتے باز دنیا میں
کون میرے سوا اکیلا تھا

جو بھی ملتا گلے لگا لیتا
کس قدر آئنا اکیلا تھا

وسیم بریلوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں