جمعرات، 31 جنوری، 2019

چومنے دار کو کس دھج سے چلا ہے کوئی


چومنے دار کو کس دھج سے چلا ہے کوئی

آج کس ناز سے مقتل میں قضا آتی ہے

نہ کبھی کوئی کرے مجھ سے ترے جیسا سلوک

ہاتھ اُٹھتے ہی یہی لب پہ دعا آتی ہے

تیرے غم کو یہ برہنہ نہیں رہنے دیتی

میری آنکھوں پہ جو اشکوں کی ردا آتی ہے

اُس کے چہرے کی تمازت بھی ہے شامل اس میں

آج تپتی ہوئی ساون کی گھٹا آتی ہے

گھومنے جب بھی ترے شہر میں جاتی ہے وفا

بین کرتی ہوئی واپس وہ سدا آتی ہے

ہے وہی بات ہر اک لب پہ بہت عام یہاں

ہم سے جو کہتے ہوئے ان کو حیا آتی ہے
وصی شاہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں