جمعرات، 31 جنوری، 2019

تم سے میرے بات ہوئی تھی


تم سے میرے بات ہوئی تھی

تم نے مجھ کو سمجھایا تھا

اپنی ذات سے باہر نکلو

گھر کو لوٹو

گھر کو دیکھو

اور بھی لوگ تمہارے دم سے زندہ ہیں

تم میں اپنی ساری خوشیاں

دیکھ رہے ہیں

سوچ لیا ہے

دیکھ لیا ہے

لوٹ آیا ہوں

لیکن میرے اندر کوئی ٹوٹ گیا ہے



شبنمی ستاروں میں پھول کھلنے لگتے ہیں

چاند مسکراتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر

عمر کاٹ دی لیکن بچپنا نہیں جاتا

ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر

گھنٹیاں سی بجتی ہیں رقص ہونے لگتا ہے

درد جگمگاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر

تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے

خواب ٹوٹ جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر

جو ستم کرے آ کر سب قبول ہے دل کو

ہم خوشی مناتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر

اب بھی تیری آہٹ پر چاند مسکراتا ہے

خواب گنگناتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر

تیرے ہجر میں ہم پر اک عذاب طاری ہے

چونک چونک جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر

دستکیں سجانے کے منظر نہیں رہتے

راستے سجاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر

اب بھی تیری آہٹ پر آس لوٹ آتی ہے

ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
وصی شاہ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں