مِرے نصیب میں پھر یہ بہار ہو کہ نہ ہو
مِرے نصیب میں پھر یہ بہار ہو کہ نہ ہو
نہ جانے پھر وہ مِرا غمگسار ہو کہ نہ ہو
یہی بہت ہے کہ اِک شخص چَین پا جائے
بھلے درخت بہت سایہ دار ہو کہ نہ ہو
اسی گُماں نے کبھی لوٹنے دیا نہ مجھے
نہ جانے اُس کو مِرا انتظار ہو کہ نہ ہو
مگر یہ طے ہے کہ میں اُسکے غم میں رہتا ہوں
مِرے لیے وہ بَھلے بیقرار ہو کہ نہ ہو
میں دُھوپ بن نہیں سکتا وصیؔ کسی کے لیے
مِرے لیے کوئی اَبرِ بہار ہو کہ نہ ہو
وصی شاہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں