منگل، 22 جنوری، 2019

سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر


سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر
زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر 

مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں 
کچھ پھول اک فقیر کی جھولی میں ڈال کر 

کل یوم ہجر زرد زمانوں کا یوم ہے 
شب بھر نہ جاگ مفت میں آنکھیں نہ لال کر 

اے گرد باد لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے 
رکھنا مرے سفر کی اذیت سنبھال کر 

محراب میں دیے کی طرح زندگی گزار 
منہ زور آندھیوں میں نہ خود کو نڈھال کر 

شاید کسی نے بخل زمیں پر کیا ہے طنز 
گہرے سمندروں سے جزیرے نکال کر 

یہ نقد جاں کہ اس کا لٹانا تو سہل ہے 
گر بن پڑے تو اس سے بھی مشکل سوال کر 

محسنؔ برہنہ سر چلی آئی ہے شام غم 
غربت نہ دیکھ اس پہ ستاروں کی شال کر 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں