پایا تھا مشکلوں سے جوساحل وہ کھو دیا
افسوس ! ناخدا نے سفینہ ڈبو دیا
وہ ! جس کا عمر بھر کبھی دیدہ نہ نم ہوا
یوں پھوٹ پھوٹ رویا کہ دامن بھگو دیا
ہم نے تو ہر طرف ہی بکھیری تھیں الفتیں
نفرت کا بیج کس نے یہاں لا کے بو دیا
قسمت نے مجھ سے وصل کے سب پھول چھین کر
جیون میں میرے ہجر کا کانٹا چبھو دیا
کیا اور کچھ نہیں تھا ؟ مرے دل کے واسطے
سارے جہاں کا درد ہی اس میں سمو دیا
واعظ ! کو کیا بنی کہ سرِ بزم اس طرح
اک رندِ کم وقار کو لپٹا کے رو دیا
آئے نہ حرف آپ پہ یہ سوچتے ہوئے
دامن کا تیرے الفی نے ہر داغ دھو دیا
افتخار الفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں