بدھ، 17 جون، 2020

شہیدِ عشق ہوئے قیس نامور کی طرح ـــــ میر ببر علی انیس

شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نامور کی طرح​
جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح​
کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر کی طرح​
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح​
تمہارے حلقہ بگوشوں میں ایک ہم بھی ہیں​
پڑا رہے یہ سخن کان میں گہر کی طرح​
نحیف و زار ہیں کیا باغباں سے زور چلے​
جہاں بٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح​
خدا جہاں میں سلامت رکھے تجھے اے قبر​
کہ سوئے پاؤں کو پھیلا کے اپنے گھر کی طرح​
ہماری قبر کو کیا احتیاجِ عنبر و عود​
سلگ رہا ہے ہر اک استخواں اگر کی طرح​
سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ​
کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح​
تمام خلق ہے خواہانِ آبرو یا رب!​
چھپا مجھے صدفِ قبر میں گہر کی طرح​
تجھ ہی کو دیکھوں گا جب تک ہیں برقرار آنکھیں​
مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح​
انیسؔ یوں ہوا حالِ جوانی و پیری​
بڑھے تھے نخل کی صورت گرے ثمر کی طرح​

۔۔۔​
میر ببر علی انیسؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں