شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نامور کی طرح
جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح
کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر کی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح
تمہارے حلقہ بگوشوں میں ایک ہم بھی ہیں
پڑا رہے یہ سخن کان میں گہر کی طرح
نحیف و زار ہیں کیا باغباں سے زور چلے
جہاں بٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح
خدا جہاں میں سلامت رکھے تجھے اے قبر
کہ سوئے پاؤں کو پھیلا کے اپنے گھر کی طرح
ہماری قبر کو کیا احتیاجِ عنبر و عود
سلگ رہا ہے ہر اک استخواں اگر کی طرح
سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ
کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح
تمام خلق ہے خواہانِ آبرو یا رب!
چھپا مجھے صدفِ قبر میں گہر کی طرح
تجھ ہی کو دیکھوں گا جب تک ہیں برقرار آنکھیں
مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح
انیسؔ یوں ہوا حالِ جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت گرے ثمر کی طرح
۔۔۔
میر ببر علی انیسؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں