حقیقت پسند ہوں اسلئے میری میٹھی زبان نہیں
مری ہر بات میں تلخی ہے میں کوئی خوشبیان نہیں
میرا دکھ کسی کیلئے ہوگا باعثِ راحت
پر کسی کا دکھ میرے لیے ہنسنے کا سامان نہیں
میرا کردار کہانی کے انجام تک نہیں پہنچے گا
اور میری کہانی کا ابھی تک کوئی عنوان نہیں
اب مجھ پر تیری جاذبیت کوئی اثر نہیں کرتی
اب میرے دل میں زندہ کوئی ارمان نہیں
بار ہا تجھے بولا ہے یوں تک مت کواڑ کو تو
تیرے یوں تکنے سے کوئی آجائے گا مہمان نہیں
ابھی تجھے تھوڑی اور محنت کی ضرورت ہے
تیری بے رخی سے ابھی ہوا میں حیران نہیں
میں چاہتا ہوں تو مجھ سے سخت بدظن ہوجائے
میں چاہتا ہوں تو مجھ سے رکھ اچھا گمان نہیں
عنقریب ہم دونوں سچ مچ بچھڑ جائیں گے
پھر ہمارے اک ہونے کا ہوگا کوئی امکان نہیں
میرے لیے تو سر بسر گھاٹے کا سودا ہے لیکن
مجھے کھو کر یقین کر ہوگا تیرا نقصان نہیں
سوچوں کے سفر سے جو تھکاوٹ ہوئی ہے مجھے
ایک نظم لکھ لینے سے اترے گی وہ تھکان نہیں
میں ہر بار تیری امیدوں پر پورا نہیں اترونگا
میں ہر بار رکھوں گا تیری بات کا مان نہیں
گر تو مجھے لہو تھوکتے دیکھے تو مڑ کر دیکھیو مت
تو مجھ پہ ترس نہ کھا مجھ پہ کر احسان نہیں
میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم پھر سے اجنبی ہو جائیں گے
عین ممکن ہے بھری محفل میں تو مجھے پہچان نہیں
'عمر' چاہ کر بھی تیری حسرت نہیں رکھ سکتا
ہائے۔۔۔ حقیقت سے آشنائی اتنی بھی آسان نہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں