آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے |
پیر، 22 اکتوبر، 2018
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں