تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤگے
تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤگے
ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤگے کسی معذور کو دیکھوگے تو یاد آؤں گا اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا وصی شاہ |
پیر، 22 اکتوبر، 2018
تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤگے
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں